• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی سی ایف، آگہی تعلیمِ بالغان پروگرام برائے خواتین

صبح کے ساڑھے 10 بجے تھے، مگرسورج سوا نیزے پر تھا۔تپش کایہ عالم کہ گاڑی کا اے سی بھی ہار مان گیا۔ ہم دراصل اسٹیل ٹاؤن کے ایک پس ماندہ گوٹھ میں ایسے خواب کی تعبیر دیکھنے جا رہے تھے، جہاں مُلک کے مستقبل اورنسلوں کو تربیت دینے والی مائیں علم کے موتی سمیٹنے میں مصروف تھیں۔ کیا آپ آج کےاس نفسا نفسی کے دَورمیں یہ تصوّر کر سکتے ہیں کہ کوئی شخص یا اِدارہ کسی غرض یا مفاد کے بغیر محض مُلک کی تعمیر و ترقّی کی خاطر کمر کس کے میدانِ عمل میں اُتر آئے۔ شہرکے پس ماندہ ترین علاقوں میں گھروں کے ایک کمرے میں محلّے کی ناخواندہ خواتین کو بنیادی تعلیم دی جا رہی ہو اور خیراتی اسکولوں کا معیارِ تعلیم کسی طور نجی اسکولز سے کم نہ ہو۔

’’دی سٹیزنزفاؤنڈیشن‘‘ گزشتہ 24 برسوں سے کمیونٹی ڈیویلپمنٹ میں مصروفِ عمل ہےیا یوں کہہ لیجیے کہ تعلیم کے حوالے سے جو کام حکومتی سطح پر ہونے چاہئیںاورانتخابات سے قبل جن نعروںکو سیاسی جماعتوں کی مہمّات کا لازمی حصّہ بنایا جاتا ہے، یہ ادارہ انہیں عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔کہا جاتا ہے کہ تعلیم یافتہ، باشعور مائیں، با شعور نسلوں کی ضامن ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں خواتین یا لڑکیوں کی تعلیم پرکم ہی توجّہ دی جاتی ہے، بالخصوص گاؤں، دیہات یا پس ماندہ علاقوں میں تو آج بھی لڑکیوں کا گھروں سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس ذیل میں نپولین بونا پارٹ کا مشہورِ زمانہ قول ’’تم مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو، مَیں تمہیں ایک مہذّب اور تعلیم یافتہ معاشرہ دوں گا‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نسل کی تربیت میں تعلیم یافتہ ماں کا کردار انتہائی اہم ہوتاہے،پاکستان کی آبادی کا تقریباً پچاس فی صد حصّہ خواتین پر مشتمل ہے، اسی لیے جب تک عورت تعلیم یافتہ نہیں ہو گی، مُلک کی ترقّی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں یہ ہر گز فراموش نہیں کرناچاہیے کہ دنیا میں وہی قوم ترقی کرتی ہے، جس کے مَرد و زن، دونوں ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوںکہ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی اور اخلاق کے ساتھ اچھے بُرے کی تمیز بھی سکھاتی ہے،مگر افسوس کہ وہ مُلک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، وہاں ایسے افراد کی کمی نہیں، جو مسلمان ہونے کے باوجود خواتین اور بچّیوں کی تعلیم کو تنگ نظری سے دیکھتے اور اپنی دقیانوسی سوچ کے ذریعےزمانۂ جاہلیت کی عکّاسی کرتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ تعلیم ِ بالغاں بالخصوص خواتین کی تعلیم کے حوالے سے جو کام سرکاری سطح پر ہونے چاہئیں ، اُن کا بیڑہ غیر سرکاری تنظیموں نے اُٹھارکھا ہے۔

ٹی سی ایف نے 2005ء میں خواتین اور بچّیوں کے لیے آگہی تعلیم ِ بالغاں پروگرام ’’Aagahi adult literacy program‘‘کاآغاز کیا تھا، جس کے تحت ا ب سالانہ 12000 ہزار خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم سے روشناس کروایا جارہا ہے۔ جب کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس تعداد میں نمایاں اضافہ بھی ہو رہاہے۔اس منصوبے کا آغاز در اصل ایسی لڑکیوں اورخواتین کے لیے کیا گیا تھا، جو اسکول جانے سے قاصر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف شہروں کے پس ماندہ علاقوں میں گھروں کے کسی ایک کمرے میں مختلف سینٹرز بنائے گئے، تاکہ ایک گلی محلّے کی خواتین وہاںبآسانی تعلیم حاصل کر سکیں۔منصوبے کو کام یابی سے جاری رکھنے میں پراجیکٹ فنڈنگ کی مد میں قریباً 25 فی صد مالی معاونت بائیر پاکستان کررہا ہے۔

جب ہم کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور کچّے پکّے راستے عبور کرتے، ادارے کے تحت چلنے والے اسکول پہنچے، تو پرنسپل ، عفیفہ نے ہمارا استقبال کیا ۔ ابھی ہم اُن کے دفتر کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ ’’لب پہ آتی ہےدُعا بن کے تمنّا میری‘‘ نے ہماری توجّہ اپنی جانب مبذول کروالی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نرسری کے جگمگاتے ستارےعلّامہ اقبال کی نظم یاد کر رہے ہیں۔ خاکی یونی فارم میں ملبوس ،گوٹھ کے بچّوں کی معصومیت اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔ کہتے ہیں آج کل کے بچّوں کا بچپن کہیں کھو سا گیا ہے،جو بہت حد تک درست بھی ہے، لیکن ان بچّوں کی چنچل ہنسی،چُلبُلی مسکراہٹ اور شرارتی آنکھیں دیکھ کر دِل چاہا کہ کاش! وقت یہیں تھم جائے اور ہم’’ پھولوں، تتلیوں اور جگنوؤں‘‘ کے سنگ بیٹھے ڈھیروں باتیں کرتے رہیں، انہیں دیکھ کر دل سے بس ایک ہی دعا نکلی کہ’’ یا اللہ! یہ جگنو ہمارے مُلک کے روشن مستقبل کے ضامن ہوں، ان پھولوں کی خُوش بوپوری دُنیا میں مہکے، اِن تِتلیوں کے رنگ کبھی پھیکے نہ پڑیں،آمین ۔‘‘وہاں کا ماحول دیکھ کر بار بار کچھ سوال دماغ کے بند دریچوں پر دستک دے رہے تھے کہ جب ایک این جی او ،محدود وسائل کے ساتھ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا موجب بن سکتی ہے، تو سات دَہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اب تک ہماری حکومتیں نظام ِ تعلیم بہتر کیوں نہ کر سکیں؟کیوںغریب کا بچّہ سرکاری تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہے؟ کیوں متوسط طبقے کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اور دن رات محنت کرکے نجی اسکولوں کی مہنگی فیسز بھرنے پر مجبور ہیں؟کیا ہمارے مقتدر حلقے واقعی اتنے بے بس ہیں کہ نسلِ نو کو سستی و معیاری تعلیم تک فراہم نہیں کر سکتےیا وہ جان بوجھ کر علم و حکمت سے بے بہرہ رہناچاہتے ہیں؟ ابھی ہم انہی سوچوں میں گُم تھے کہ پرنسپل نے بتایا کہ تہمینہ ناز،(ہیلپ ڈیسک آفیسر،کراچی )اور اُن کی ٹیم آگئی ہے، جو اس پروگرام سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے ساتھ سینٹر کا دَورہ بھی کروائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’آگہی تعلیم ِبالغاں پروگرام ، چھے ماہ پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں سے تین ماہ رجسٹریشن اور ٹیچرز کی تربیت میں گزر جاتے ہیں، جب کہ تین ماہ باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک سال میں دو فیز (جنوری تا جون اور جولائی تا دسمبر ) اور کُل نوّے دن کلاسز ہوتی ہیں۔ داخلے کے عمل کا آغاز سینٹر رجسٹریشن سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرعلاقے میں قائم اسکول کی پرنسپل،محلّے کے گھروں میں جاتی ہیں یاپھر اسکول میں زیرِ تعلیم بچّوں کی ناخواندہ ماؤں سے متعلق معلومات اکٹھی کرتی ہیں پھر سینٹر کا تعّین کیا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں ٹیچرز کو تربیت دی جاتی ہے۔ آگہی پروگرام میں’’بُک وَن ،ٹُو، تھری اور فور‘‘ پڑھائی جاتی ہیں ،جن کے ذریعے بنیادی اُردو، انگریزی ،حساب اور صحت و صفائی سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔علاوہ ازیں، تمام ٹیچرز کو ایک مینویل بھی دیا جاتا ہے، جس میں پڑھانے کا مکمّل طریقۂ کاردرج ہوتا ہے، یعنی روزانہ کا شیڈول ، ایک دن میں کس سبق کے کتنے صفحات پڑھانے ہیں وغیرہ ، جب کہ صحت و صفائی بُک ہر جمعے کو پڑھائی جاتی ہے۔اس دوران صرف حفظانِ صحت کےاصولوں سے متعلق سر سری معلومات نہیں فراہم کی جاتیں بلکہ گندگی، ناصاف پانی اور دیگر وجوہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متعلق بھی مکمل آگہی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس تعلیم کا مقصد در اصل خواتین میں صحت و صفائی سے متعلق شعور بیدار کرنا ہے تاکہ اس کی بدولت ان کا گھرانہ صحت مند و خُوش حال رہے۔جب یہ کورس مکمل ہوجاتا ہے، توباقاعدہ امتحان لیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکربھی ضروری ہے کہ سینٹر میںجو ٹیچر پڑھاتی ہے، امتحان لینے میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ نظام کو شفّاف بنانے کے لیےامتحان ہمیشہ اسکول کی پرنسل یا کوئی اور ٹیچر لیتی ہیں، تاکہ طلبہ کی قابلیت کو اچھی طرح جانچا جاسکے۔ ہمارا مقصد صرف خواتین اور بچّیوںکو پڑھانا نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرتی شعور بیدار کر نا بھی ہے۔ ہم پاکستان کا ’’آج‘‘ بہتر بنا رہے ہیںتاکہ ہمارا ’’کل‘‘ روشن ہو۔ ‘‘ ابھی تہمینہ کی بات مکمّل بھی نہ ہوئی تھی کہ چوکیدار نے بتایا کہ سینٹر جانے کے لیے گاڑی آگئی ہے۔ سینٹر ، اسکول سے تھوڑی ہی مسافت پرایک چھوٹے سےگھر کے کمرے میں قائم کیا گیاتھا۔ سینٹر پہنچے تو لوڈ شیڈنگ کے باعث بجلی نہیں تھی، مگر کمرا چھوٹے بچّوں سے لے کر پچاس سال تک کی خواتین سے بھرا ہوا تھا۔ وائٹ بورڈ پر ’’حروف جوڑیے‘‘لکھا تھا اور ٹیچر الفا ظ جوڑنا سکھا رہی تھیں۔ جب ٹیچر سبق پڑھا چکیں، تو انہوںنے اپنی ایک شاگرد فاطمہ بی بی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خاتون میری پڑوسن ہیں،جوپنجاب سے بیاہ کر آئی ہیں، انہیں ایک لفظ بھی لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔ ایک روز جب ان کے بچّے کی طبیعت خراب ہوئی تو یہ دوا خریدنےڈسپنسری کی بہ جائے بچت بازار چلی گئیں،جہاں انہیں کسی نےکھانسی کا شربت مہنگے داموں فروخت کردیا۔ اتفاقاً مَیں اُن کے گھر گئی اور پریشانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے سارا ماجرا کہہ سنایا، تب مَیں نے ان کے شوہر سے درخواست کی کہ انہیں پڑھنے کے لیے بھیجیں کہ ان کا بنیادی تعلیم حاصل کرنا بے حد ضروری ہے، اگر خدانخواستہ یہ بچّے کو کوئی غلط دواپلا دیتیں ، تو جانی نقصان بھی ہوسکتا تھا۔ سو، ان کے شوہر نےانہیں پڑھنے کی اجازت دے دی۔‘‘ اسی طرح وہاں ہماری ملاقات پچاس سالہ نازیہ کوثر سے بھی ہوئی،جن کے جوان بچّے ہیں، مگر وہ گھر والوں سے چُھپ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ’’مجھے بچپن سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، مگرگھر والے اجازت نہیں دیتے تھے، پر اب مَیں اپنے شوق ، اپنے خواب کو حقیقت میں بدل رہی ہوں۔‘‘ ایک کونے میں بڑی سی چادر میں لپٹی ، شرمیلی سی ایک لڑکی پر نظر پڑی ،جس کی شادی کو ابھی دوہی سال ہوئے ہیں، مگر دیگر خواتین کے بر عکس اس کے شوہر نے خود اسے یہاں داخلہ دلوایا ہے تاکہ وہ کم از کم بنیادی تعلیم تو حاصل کر سکے۔ وہاں ہمیں صرف خواتین اور بچّیاں ہی نہیں بلکہ چھوٹے بچّے بھی نظر آئے، جو دل جمعی سے اپنا سبق یاد کرنے میں مصروف تھے،بلکہ ٹیچر نے درخواست بھی کی کہ اگر وہ امتحان پاس کرلیں، تو انہیں اسکول میں داخلہ دے دیا جائے، تاکہ وہ بھی باقی بچّوں کی طرح باقاعدہ تعلیم حاصل کرسکیں۔ کہنے کے لیے تو آگہی، تعلیم ِ بالغاں پروگرام ہے ،لیکن اس کے تحت چھوٹے بچّے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

این جی او کے تحت چلنے والے اسکول اورتعلیم ِ بالغاں سینٹر جا کر یہ احساس ہواکہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ جیسی جس اَن مول نعمت کو ہم ’’فار گرانٹڈ‘‘ لیتے ہیں، آبادی کی اکثریت کو وہ میسر ہی نہیں اور اگر غیر سرکاری تنظیمیں اس ضمن میں اپنا کر دار ادا نہ کریں، تو وطنِ عزیز کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ جہالت کی تاریکی سے کبھی باہر ہی نہ آسکے ۔ یہ مُلک صرف مقتدر حلقوں کا نہیں، بلکہ ہم سب کا ہے، اس لیے اسے ترقّی کی راہ پر گام زن کرنے میں ہم سب کو مِل جُل کر حصّہ لینا ہوگا، تب ہی ہمارا آنے والا کل، آج سے بہتر ہوگا۔

تازہ ترین