• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی رول ماڈل کی شدید کمی کا شکار

لوٹن (نمائندہ جنگ ) برطانیہ بھر میں پاکستانی کمیونٹی کو مثبت رول ماڈل کی شدید کمی کا سامنا ہے جس وجہ سے پاکستانی نوجوان نسل منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ پاکستانی نمائندوں کی اکثریت آزادکشمیر پاکستان کے بدعنوان عناصر کی خوش آمدوں اور پروجیکشن میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔جیسے ہی کوئی کونسلر مئیر وغیرہ بنتا ہے بلکہ بننے سے بھی پہلے آزاکشمیر پاکستان جانے کےدورے ترتیب دینے شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقصد برطانوی سیاسی دھارے میں شامل ہونا نہیں بلکہ بیک ہوم back home ٹہکا جمانا ہے۔ اپنے اپنے حلقہ ہائے انتخابات سے غفلت کی روش نظر آتی ہے بیڈفورڈشائر کاونٹی جس میں لوٹن شامل ہے یہاں پر اقلیتی برادریوں بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کو بہتر رول ماڈل کی شدید کمی کا سامنا ہے اسی طرح کی ملتی جلتی صورت حال دیگر کائونٹیز میں بھی درپیش ہے کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد کے کونسلرز اور مئیر وغیرہ بننے کے باوجود اور ہاؤس آف لارڈز ہاؤس آف کامنز میں اضافہ کے با وصف پاکستانی لیڈرشپ کی اجتماعی ناکامی ہے کہ وہ کمیونٹی بچوں اور نوجوانوں کی اکثریت کو مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ انفرادی طور پر اگرچہ بعض لارڈز ، ایم پیز ، ایم ای پیز ، کونسلرز کی کاوشیں قابل قدر ہیں مگر اجتماعی طور پر جو صورت حال برطانوی پاکستانی کمیونٹی کو درپیش ہے اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ پاکستانی بچوں کی اکثریت تعلیمی اعتبار سے ہم عصر کمیونٹیز سے بہت پیچھے رہ گئی ہے نوجوانوں کی قابل زکر تعداد کئی طرح کے جرائم میں مبتلا ہے کونسلرز کمیونٹی یوتھ کے لیے قابل زکر پروگرام ڈلیور کرنے میں ناکام رہے ہیں ہر کوئی لیڈری چمکانے کے زعم میں مبتلا ہے ووٹ برطانوی سیاسی جماعتوں کے نام پر لیتے ہیں اور بعض کونسلرز میئر اور دیگر عہدوں پر پہنچ کر اگلے چار سال اپنی وارڈوں پر توجہ دینے اپنے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ان کو جرائم سے نکالنے کے بجائے آزاکشمیر اور پاکستان کے اکثر ان سیاستدانوں کی کونسلوں میں پروجیکشن پر توانائیاں خرچ کرتے نظر آتے ہیں کہ خود جن کو آزاکشمیر کے عوام سیکورٹی رسک قرار دیتے ہیں جن کی آڈیوز سن کر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور یہ سلسلہ صرف لوٹن ہی نہیں برطانیہ میں جہاں جہاں کمیونٹی آباد ہے پھیلا ہوا ہے برطانیہ بھر میں اپنے متعدد لارڈز ایم پییز ایم ای پیز اور بے شمار کونسلرز موجود ہیں لیکن اکثریت برطانیہ میں پیدا اور پروان چڑھنے والی اپنی جنریشنز کو مقامی اور قومی سیاسی سماجی دھارے میں شامل کرنے اور ان کے لیے قابل تقلید رول ماڈل سامنے لانے سے معذور دکھائی دیتی ہے ۔ کونسلوں کے علاوہ دیگر ایوانوں میں بھی اکثر بدعنوان پاکستانی کشمیری سیاسی زعماء کے مسئلہ کشمیر کے نام پر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن کا مسئلہ کشمیر کو شاید ہی اجاگر کرنے میں کوئی مدد ملتی ہو لیکن منتظمین اور مہمانان گرامی کی خوب پبلسٹی ہو جاتی ہے تاہم اس تناظر میں بیڈفورڈشائر پولیس میں خواتین، ایشیائی اور دیگر اقلیتی برادریوں کا خوش آئند اضافہ کی خبر ملی ہے جو اگرچہ اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف ہے لیکن ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے پولیس کو ڈائورس diverse فورس بنانے کی طرف قدم اٹھایا گیا ہےتفصیل کے مطابق بیڈفورڈشائر پولیس میں حالیہ بھرتی میں 19 میں سے 13 خواتین، 5 ایشیائی اور دیگر اقلیتی طبقوں سے ریکروٹ شامل، یہ بات بیڈز پولیس کی ایک پریس ریلیز میں بتائی گئی ہے جس کے مطابق 27 مئی سے پولیس میں نئی بھرتی مہم شروع ہوگی، بیڈفورڈشائر پولیس میں خواتین، ایشائی اور دیگر اقلیتی برادریوں کے اضافے کو پولیس سربراہوں نے ایک مثبت کاوش قرار دیا ہے بیڈفورڈشائر پولیس میں حالیہ بھرتی کے بعد 10 مئی کو تربیتی پروگرام لانچ کیا گیا یہ پروگرام سولہ ہفتے جاری رہے گا پولیس ری کروٹ پروگرام انچارج نے کہا ہے کہ پہلی مرتبہ خواتین ریکروٹ کی تعداد مرد امیدواروں سے زیادہ ہے جو فورس کی ایک بڑی کامیابی ہے سارجنٹ رتھ نے کہا ہے کہ پولیس میں ملازمت اگرچہ ایک چیلنجنگ کام ہوتا ہے مگر یہ سروس بہت ری وارڈ reward. یافتہ ہےاور آپ لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہرگز منظر سے متعلق خواتین اور مردوں میں پولیس ملازمت کے لیے کشش پائی جاتی ہے اور بہت سے باصلاحیت افراد کا اس فورس میں شامل ہونا حوصلہ افزا امر ہے۔ جبکہ جنگ کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات اگر جاری رہیں تو بتدریج کمیونٹی بچوں اور نوجوانوں کے سامنے بہتر رول ماڈل آئیں گے انہیں اچھے شعبوں میں ملازمتوں کی ترغیب ملے گی اس لیے اشد ضروری ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کی ملک بھر میں نمائندگی کے دم بھرنے والے لارڈز ، ایم پیز ، ایم ای پیز، لارڈ میئرز، کونسلرز اور میئرز اب برطانیہ میں پاکستان آزادکشمیر کے سیاسی زعما کی پروجیکشن کو ترک کرکے اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں اپنے لوگوں کی حالت زار کو بہتر بنانے پر فوکس کریں اور آزاکشمیر پاکستان کے معاملات وہاں وطن عزیز کے اندر بسنے والے عوام پر چھوڑ دیں وہ اپنے لیے جس پارٹی کو بھی بہتر سمجھیں گے اس کا ساتھ دیں گے یہاں کے نمائندوں کا کام یہاں پر اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں تمام کمیونٹیز کی بلا رنگ ونسل اور مذہب ان کے مسائل کے حل پر توجہ دینا ہے اور ساتھ اپنی کمیونیٹی کے مقام اور وقار کو بلند کرنا ہے۔ نمائندوں کا کام ہے کہ وہ کمیونٹی کی مشاورت کریں اور نوجوانوں کیلئے بہتر سے بہتر رول ماڈل سامنے لائیں۔
تازہ ترین