• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سکاٹ لینڈ کی ڈائری…طاہرانعام شیخ
برطانیہ کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت یا ادارہ ایسا ہو جہاں پر چھپی ہوئی اندرونی نسل پرستی یا اسلاموفوبیا نہ پایا جاتا ہو اور اس شر سے نسلی اقلیتوں یا مسلمانوں کی کوئی بڑی سے بڑی شخصیت چاہے وہ برطانوی وزیرداخلہ ساجد جاوید ہوں یا لندن کے میئر صادق خان، سکاٹ لینڈ کے جسٹس سیکرٹری حمزہ یوسف ہوں یا لیبرپارٹی کے سابق قائم مقام چیئرمین انس سرور، ممبران پارلیمنٹ ہوں یا کونسلرز اور عام شہری کوئی بھی اس معاشرتی لعنت سے محفوظ نہیں رہا۔ انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعتوں سے تو خیر ہمیں پہلے ہی کسی خیر کی توقع نہیں لیکن سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب بائیں بازو کی یا معتدل جماعتیں جو ہماری خیرخواہی کا دم بھرتی ہیں ہر مقام پر ہمیں اپنی ہمدردی جتاتی ہیں، مساوات کا دعویٰ کرتی ہیں، جب ان کی خفیہ نسل پرستی سے سابقہ پڑتا ہے جن پر تکیہ ہو وہی پتے ہوا دینے لگیں تو مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایسے رویئے سسٹم پر سے اعتماد کو متزلزل کردیتے ہیں۔ سکاٹش پارلیمنٹ کے ممبر انس سرور جنہوں نے اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے متعلق ایک زبردست مہم چلا رکھی ہے اور وہ سکاٹش پارلیمنٹ میں اسلاموفوبیا پر کراس پارٹی گروپ کے چیئرمین ہیں انہی کی سربراہی میں اس گروپ نے برٹش پارلیمنٹ میں آل پارٹی گروپ آن مسلمز کی اسلاموفوبیا کے متعلق طے کردہ تاریخی تولیف کو سب سے پہلے قبول کیا تھا جسے برطانوی حکومت مسترد کرچکی تھی، جس کے مطابق اسلاموفوبیا کی جڑیں نسل پرستی میں پنہاں ہیں اور یہ نسل پرستی کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی فرد کی مسلمانیت ظاہر ہونے پر اسے تعصب کا نشانہ بناتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب انس سرور خود اپنی ہی لیبرپارٹی کی طرف سے ایسی ہی صورتحال کا نشانہ بنے ہیں۔ 2017میں جب وہ سکاٹش لیبرپارٹی کی سربراہی کا الیکشن لڑ رہے تھے، انتخابی مہم کے دوران لیبرپارٹی کے ایک سینئر کونسلر جو کہ ہملٹن کونسل میں پارٹی لیڈر بھی رہ چکے تھے، مبینہ طور پر انہوں نے انس سرور سے کہا کہ وہ ان کو سپورٹ نہیں کرسکتے کیونکہ سکاٹ لینڈ کی برائون، مسلم اور پاکی کو ووٹ نہیں دے گا، یہ ایسے واضح نسل پرستانہ الفاظ ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں رہنے والی نسلی و مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں۔ انس سرور نے کونسلر ڈیوی میک لیچن کے ان ریمارکس کے خلاف پارٹی کی انضباطی کمیٹی کے پاس شکایت درج کروادی، بجائے اس کہ انس سرور کی دادرسی کی جاتی، انہیں انصاف ملتا، پہلے تو انس کافی عرصے تک اپنی درخواست کی پیش رفت کے متعلق نہایت ہی کم معلومات دی گئیں اور پھر اچانک پتہ چلا کہ چار دن کے بعد لندن سے لیبرپارٹی کی آئینی کمیٹی کے ممبران اس مقدمے کی سماعت کے لئے آرہے ہیں۔ مقدمے کی سماعت گیارہ بجے ہونا تھی اور صرف دو گھنٹے پہلے ان کو اس کے متعلق کاغذات مہیا کئے گئے، اور پھر سب سے عجیب یہ ہوئی کہ جب وہ شہادت کے لئے گئے تو ان کو بتایا گیا کہ اس مقدمے میں وہ گواہ کے طور پر پیش نہیں ہوسکتے، کیونکہ اس معاملے میں کمیٹی کو دو ہفتے کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے، اگر کسی کو مقدمے کی سماعت کی تاریخ سے چار دن قبل بتایا جاتا ہے تو دو ہفتے وہ کیسےنوٹس دے سکتا ہے، کونسلر میک لیچن نے کمیٹی کو بتایا کہ میں نے یہ الفاظ بالکل ادا نہیں کئے تھے اور یہ مجھ پر صرف الزامات ہیں، چنانچہ کمیٹی نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ چونکہ کوئی زبانی شہادت نہیں دی گئی، لہذا جوبداہی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں اور یوں مقدمے کو خارج کردیا، کمیٹی نے اپنے اس طریقہ کار سے یقیناً اپنے قانونی تقاضے پورے کرلئے لیکن اخلاقیات اور جمہوری اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے، یوں لگتا ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلائے جانے والے کسی ملک میں نہیں، بلکہ تیسری دنیا کے جمہوری لحاظ سے انتہائی پسماندہ ملک کا ہے۔ یا کہ یہ میگناکارٹا سے پہلے والے برطانیہ کا حصہ ہے یہاں تک کہ سکاٹش لیبرپارٹی کے سربراہ رچرڈ لیونارڈ جن کے خلاف انس سرور نے لیڈر شپ کا الیکشن لڑا تھا وہ بھی اس مقدمے پر اپنے تحفظات نہ چھپاسکے اور کہا کہ ان کو انکوائری کے اس طریقہ کار پر چند خدشات ہیں کہ کیا اس نے فریقین کو انصاف مہیا کیا ہے۔ نسلی اقلیتوں کے افراد اس فیصلے پر نہایت دلبرداشتہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر لیبرپارٹی کے ایک بڑے لیڈر کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاسکتا ہے تو ان کی کیا حیثیت ہے۔
تازہ ترین