• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بحیثیت قوم یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وطن عزیز سے سالانہ 10ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کی غیر قانونی رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے دوسرے ملکوں کے بنکوں میں منتقل کی جاتی ہیں، یہ وہ رقوم ہیں جو رشوت، ٹیکس چوری، بدعنوانی اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں۔ کھربوں روپے کا یہ سرمایہ اتنا زیادہ ہے کہ قومی معیشت پر مسلط100ارب ڈالر کا قرضہ اتار کر بھی یہ کئی میگا پروجیکٹس میں کام آسکتا ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ان رقوم کی واپسی اب تک اٹھائے جانے والے اقدامات سے ممکن نہیں ہو سکی۔ چند روز قبل ملک میں نافذ کی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں اب منی لانڈرنگ کے ملزمان کو بھی شامل کرنے کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ ا س سے60ہزار 375افراد فائدہ اٹھا سکیں گے اور ان کا اندرون و بیرون ملک مختلف شکلوں میں چھپایا گیا کالا دھن سفید ہو سکے گا۔ اس اقدام کے تحت 26ملکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے چھپائی گئ رقوم کے حامل افراد کے خلاف مقامی قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ موخر جبکہ ایف بی آر کو ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں اہداف کو پورا کرنا موجودہ حکومت کے لئے سابقہ ادوار سے بھی بڑھ کر ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس کی طرح نافذ کی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ہی کی شکل میں ایک ایسا راستہ دکھائی دے رہا ہے جس سے آنے والے بجٹ کی تیاری میں مدد مل سکے۔ گوکہ ایف بی آر کے نئے چیئرمین نے اس اسکیم کو اہداف کے حصول میں انتہائی اہم قرار دیا ہے لیکن خیال رہے کہ جب تک اصل رقوم کی واپسی ممکن نہیں ہو جاتی ان کا چند فیصد حصہ ہی شاید وقتی طور پر آنے والے بجٹ میں کام آسکے۔ تاہم ملکی قوانین کے تحت ایسے اقدامات کئے جائیں کہ نہ صرف مستقبل میں ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے رجحانات ختم ہوں بلکہ دوسرے ملکوں میں چھپا کر رکھا گیا کھربوں روپے کا سرمایہ واپس بھی لایا جا سکے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین