• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شرح سود میں اضافے سے مجموعی قرضوں اورواجبات میں تیزی سے اضافہ

اسلام آباد(مہتاب حیدر)بجٹ خسارہ اور شرح سود میں اضافے سے مجموعی قرضوں اور واجبات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔مجموعی قرضے اور واجبات 35ٹریلین روپےجو کہ جی ڈی پی کا 91اعشاریہ 2فیصد ہے۔سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ میں تبدیلی سے قرضوں کی مطلوبہ ضروریات میں مزید اضافہ ہوگا۔تفصیلات کے مطابق،شرح سود میں اضافہ اب 12اعشاریہ25فیصد پر پہنچ گیا ہے اورمارچ 2019کے اختتام پر پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات 35اعشاریہ094ٹریلین روپے تک پہنچ گئے تھے ، جب کہ بجٹ خسارے کے تناظر میں ان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ (جولائی تا مارچ)کے دوران مجموعی قرضوں اور واجبات میں 6ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا جو کہ جون 2018میں 28اعشاریہ879 ٹریلین روپے سے بڑھ کرمارچ 2019تک 35اعشاریہ094 ٹریلین روپے پہنچ گئے تھے۔مجموعی قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 91اعشاریہ2فیصد ہوگئے ہیں۔مارچ 2019کے اختتام تک بیرونی قرضے اور واجبات 105ارب ڈالرز کی حد عبور کرچکے تھے، جس سے آنے والے دنوں میں سنگین مشکلات پید اہوسکتی ہیں۔موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں اور واجبات میں 10ارب ڈالرز کا اضافہ ہوچکا ہے۔مجموعی قرضے اور واجبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ ، اس کی مالی ضروریات اور شرح سود میں اضافہ ہے۔پالیسی ریٹ میں 150بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہےجو کہ 10اعشاریہ75فیصد سے بڑھ کر 12اعشاریہ 25فیصد پر پہنچ گئی ہے۔پاکستان کا مجموعی قرضہ 33اعشاریہ026ٹریلین روپے ہے۔جس میں حکومت کا ملکی قرضہ 18اعشاریہ17ٹریلین روپےاور سرکاری اداروں(پی ایس ایز)کا قرضہ 1اعشاریہ378ٹریلین روپے ہے۔مارچ 2019کے اختتام تک مجموعی واجبات 2اعشاریہ067ٹریلین روپے تھے۔مالیاتی ذمہ داری کی تعریف اور قرضوں کے حد کا ایکٹ(ایف آر ڈی ایل اے)کی تعریف کے مطابق مجموعی حکومتی قرضہ 26اعشاریہ 368ٹریلین روپے ہے۔اس ضمن میں جب سابق سیکرٹری خزانہ اور معروف ماہر معیشت ڈاکٹر وقار مسعود سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ میں تبدیلی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہےاس سے قرضوں کی مطلوبہ ضروریات میں مزید اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ میں 150بیسز پوائنٹس کے اضافے سے یہ 600بیسز پوائنٹس تک پہنچ چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سے استحکام کے حصول کی کوشش کی جارہی ہےاور اس سے اصل موثر شرح سود میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔100ارب ڈالرز کی نفسیاتی حد رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی (جنوری تا مارچ)میں ہی عبور ہوگئی تھی۔دسمبر 2018کے اختتام تک بیرونی قرضے اور واجبات 99ارب ڈالرز پر تھے۔رواں مالی سال میں اب تک غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سست روی کا شکار رہی ہےلیکن غیر ملکی قرضوں پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ بیرونی اکائونٹ کا فرق ہے۔تاہم جاری اکائونٹ خسارے میں 30فیصد کمی واقع ہوئی ہےجو کہ گزشتہ مالی سال کےد وران 19ارب ڈالرز پر تھا اور اب توقع کی جارہی ہے کہ جون کے آخر تک یہ کم ہوکر 12اعشاریہ5ارب ڈالرز تک ہوجائے گا۔مارچ 2019تک سرکاری غیر ملکی قرضے 84ارب ڈالرز تھے ، جس میں سے حکومتی بیرونی قرضے 68ارب ڈالرز تھے۔ملک پر پیرس کلب کے 11اعشاریہ3ارب ڈالرز ، کثیر فریقی اور دیگر کے 27ارب ڈالرز اور عالمی بونڈز جیسا کہ یورو بونڈ اور سکوک 12ارب ڈالرز قرضے ہیں۔جب کہ کمرشل قرضے 8اعشاریہ8ارب ڈالرز اور ایک سال سے کم مختصر مدتی قرضے 1اعشاریہ1ارب ڈالرز کے ہیں ۔آئی ایم ایف کے واجب الادا قرضے 5اعشاریہ765ارب ڈالرز ہیں۔پاکستان اور آئی ایم ایف نے حال ہی میں اسٹاف سطح کا معاہدہ کیا ہے جو کہ 6ارب ڈالرز کے پیکج کے لیے کیا گیا ہے، جس سے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضوں کے حصول کی راہ ہموار ہوگی۔پاکستان آئندہ مالی سال کے دوران عالمی بونڈز کا اجرا بھی کرے گا، جس سے آنے والے دنوں میں بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگا۔آئی ایم ایف قرضوں پر استحکام کی جانچ پڑتال کرچکا ہےاور بیل آئوٹ پیکج کی منظوری کے بعد جون کے آخر یا جولائی کے آغاز میں اسے عوام کی سطح پر جاری کردے گا۔ملکی او ر غیر ملکی قرضوں کے تناظر میں وفاقی بجٹ میں اخراجات کے حوالے سے قرضوں کی ادائیگی سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہےجو کہ 30جون 2019کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کے اختتام تک 2اعشاریہ1سے 2اعشاریہ2ٹریلین روپے تک پہنچ سکتا ہے۔

تازہ ترین