• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیام پاکستان کے وقت پورے ملک میں طبی تعلیم کے صرف دو میڈیکل ایجوکیشن کے ادارے تھے۔ ایک کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور اوردوسرا ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی، اب یہ دونوں کالج، یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں کوئی میڈیکل کالج نہیں تھا۔ اس وقت میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کیلئے صرف 15فیصدکوٹہ مخصوص تھاجوکہ ایک نئے ملک میں لڑکیوں کی میڈیکل ایجوکیشن کے لئے نہایت ہی کم تھا۔ اس وقت ڈاکٹر شجاعت علی کچھ اور ڈاکٹروں نے پاکستان میں لڑکیوں کیلئے ایک میڈیکل کالج قائم کرنے کے حوالے سے بات کی اور قائداعظم کی اجازت سے اس کالج کا نام فاطمہ جناح میڈیکل کالج رکھا گیا جبکہ یاد رہے کہ اس کالج کا نام پہلے بالک رام میڈیکل کالج تھا جوسرگنگا رام نے اپنے بیٹے کے نام پر قائم کیا تھا۔ ابھی اس کالج میں طالبات زیرتعلیم تھیں کہ پاکستان کاقیام عمل میں لایا گیا چنانچہ ہندو اساتذہ اور ہندو طلباء تو بھارت چلے گئے اب اس جگہ پر ایف جے ایم سی قائم کر دیا گیا اوراسے صرف اورصرف خواتین کے لئے میڈیکل ایجوکیشن کا ادارہ بنایا گیا۔مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد کوبڑھایا جائے اور لیڈی ڈاکٹروں کی کمی کو دور کیاجاسکے یہ علیحدہ بات ہے کہ آج بھی پاکستان کے نہ صرف دیہات، چھوٹے شہروں بلکہ بڑے شہروں میں بھی لیڈی ڈاکٹروں کی اشد کمی ہے آج بھی کوئی لیڈی ڈاکٹر دیہات حتیٰ کہ چھوٹے شہر میں بھی جا کر کام کرنے کو تیارنہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن پر تفصیل سے پھر بات کی جائے گی۔ اس وقت جامشورو میں لڑکیوں کے لئے ایک میڈیکل کالج ہے۔
اگلے روز لیڈی ڈاکٹروں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہماری بات تحریک ِ پاکستان کے سرگرم رکن ملک برکت علی کے پوتے اورعلامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسرڈاکٹرمحمود شوکت سے بات چیت ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آج بھی کئی ایسے فیلڈ ہیں جہاں لیڈی ڈاکٹر سرے سے موجود نہیں۔ مثلاً بچوں کی سرجری، نیورو سرجری، ہارٹ سرجری، یورالوجی، نفسیات وغیرہ میں کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں۔ چار پانچ برس قبل ہم نے کوئٹہ سے میرخلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے زیراہتمام آنکھوں کی بیماریوں پر سیمینار رکھا ہوا تھا تووہاں کے مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہاں پر لوگ اپنی عورتوں کو اندھا کرالیتے ہیں مگر ڈاکٹروں سے علاج نہیں کراتے کیونکہ بلوچستان میں لیڈی ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے اور موتیا بند کا معمولی آپریشن جو لاہور میں آئی سرجن سڑکوں پر کیمپ لگا کر دیتے ہیں وہاں پر بلوچ اپنی روایات کی وجہ سے کسی مرد ڈاکٹر کے پاس اپنی خواتین کو لے کر نہیں جاتے اوروہاں بعض خواتین 45/40 برس کی عمر میں اندھی ہوگئی ہیں۔
میڈیکل کالجوں میں 1988 تک لڑکیوں کے لئے کوٹہ سسٹم چلتا رہا ۔ 1988 میں کچھ لڑکیو ں نے کوٹہ سسٹم کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائرکردی کہ جب اوپن میرٹ ہے تو اوپن میرٹ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے بغیر جنس کے ہونا چاہئے اور ہمیں بھی اوپن میرٹ میں لڑکوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے لڑکیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ اوپن میرٹ پر لڑکیاں بھی حصہ لے سکتی ہیں اور دوسری طرف سپریم کورٹ نے تمام کوٹے مثلاً فوجیوں اور ڈاکٹروں کے بچوں کیلئے مخصوص کوٹے بھی ختم کردیئے اور 1990 سے تمام میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ سسٹم لاگو ہوگیا ۔ بیس اوربائیس برس میں حالات یہ ہوگئے ہیں کہ اب پاکستان کے تمام میڈیکل کالجوں میں 65% سے 70% تک لڑکیاں اوپن میرٹ پر داخل ہوچکی ہیں اورلڑکوں کی تعداد 30% سے 35% رہ گئی ہے۔ کئی میڈیکل کالجوں کواپنے بوائز ہوسٹلوں کولڑکیوں کے لئے مخصوص کرنا پڑے ہیں۔ خیال یہ تھاکہ جب اس قدر تعداد میں پورے ملک میں لڑکیاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کریں گی تو یقیناً ملک میں خواتین ڈاکٹروں کی کمی پوری ہوجائے گی مگر یہاں حالات تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہونا شروع ہوگئے کیونکہ ان 70%لڑکیوں میں سے بھی 65سے 70% لڑکیاں ایسی ہیں جوڈاکٹر توبن رہی تھیں لیکن فیلڈ میں نہیں آر ہیں۔
ہمارے ہاں پچھلے 30/25 برس سے یہ رجحان بڑھ گیا ہے کہ لڑکی ڈاکٹر ہونی چاہئے۔رشتہ اچھا ملے گا چنانچہ والدین نے اپنی بچیوں کو ہر صورت ڈاکٹر بنوانا شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف امیر لوگوں نے اپنی بچیوں کو پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں ”ہر طریقہ“ استعمال کرکے داخل کرانا شرع کردیا جس کے نتیجے میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ حکومت ایک فرد کوڈاکٹر بنانے پر 30/25 لاکھ روپے خرچ کرتی ہے اوریہ لڑکیاں جونہی اچھا رشتہ آتا ہے ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ دیتی ہیں۔ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر نبیہ حسن (جو کہ حسین حقانی کی خالہ ہیں) نے ہمیں بتایا کہ وہ آج کل یہ رپورٹ بنا رہی ہیں کہ 1948 سے لے کر اب تک کتنی خواتین نے یہاں سے ڈاکٹری کی اورکتنی فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔ بہرحال وہ کام شاید مکمل نہ ہوسکا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک پالیسی بنائے کہ جو لڑکیاں اوپن میرٹ پر داخل ہوتی ہیں وہ ایک بانڈ بھر کر دیں کہ وہ ڈاکٹر بننے کے بعد کم از کم دس سال ضرورفیلڈ میں کام کریں گی اور اگر وہ ڈاکٹری نہیں کریں گی تو وہ حکومت کوکم از کم 25 لاکھ روپے جمع کرائے گی۔ اس طرح حکومت کو چاہئے کہ کچھ میڈیکل کالج صرف اور صرف لڑکوں کے لئے بنائے جائیں ۔اگر ایف جے ایم سی صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص ہے تولڑکوں کے لئے کیوں نہیں علیحدہ میڈیکل کالج ہوسکتا۔ پھر ہمارے ہاں ہیلتھ سسٹم ایسا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی اکثریت عرب ممالک میں جاب کرنے بھی جاتی ہے کیونکہ وہاں پر پیسے بہت زیادہ ملتے ہیں۔ہمارے ہاں چھوٹے شہروں میں آج بھی خواتین ڈاکٹروں کی تعداد یقینا نہ ہونے کے برابرہے۔ پھر دیہات اورچھوٹے شہروں میں جا کر لیڈی ڈاکٹروں کے لئے کام کرنے کے حالات بھی نہیں۔کوئی رہائشی سہولت نہیں پھربھلاکیوں ایک لیڈی ڈاکٹر وہاں جا کر جاب کرے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت پسماندہ علاقوں اور دیہات میں کام کرنے والی لڑکیوں کو تنخواہوں اور دیگر سہولیات شہروں کے مقابلے میں زیادہ دے تاکہ یہ لیڈی ڈاکٹرز اپنی فیملیز کے ساتھ وہاں جا کر کام کرسکیں اور غریب لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات مل سکیں۔
اس وقت ملک میں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے لیکن حرام ہے کہ کوئی اس طرف سوچے کہ اس ملک کے غریب لوگوں کو کس طرح علاج و معالجے کی بہترسہولتیں مل سکتی ہیں۔ اگر اسی طرح اوپن میرٹ پر لڑکیوں کوداخلہ ملتا رہا تویقین کریں کہ ایک وقت آئے گا کہ سارے میڈیکل کالجوں میں صرف اورصرف لڑکیاں ہی رہ جائیں گی۔ ابھی سے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین