• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”جمہوریت واقعی خوبصورت ہے“ یہ اس وقت ثابت ہو گیا جب 14جنوری سے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی زیرقیادت لاہور سے شروع کیا گیا لانگ مارچ جو بعد میں اسلام آباد پہنچ کر ڈی چوک پر ایک بہت بڑے دھرنے میں تبدیل ہوگیا، کا ڈراپ سین خون بہائے بغیر پُرامن طور پر ہوا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب حکومت کی اتحادی پارٹیوں کے رہنماؤں اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ڈائیلاگ ہوا جس کے نتیجے میں ایک چار نکاتی معاہدہ ہوا جسے ”اعلان لانگ مارچ اسلام آباد“ کا نام دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کا حسن ڈائیلاگ ہے اور یہی جمہوریت ہے۔ اس طرح جمہوریت ایک بہت بڑے حادثے سے بچ گئی۔ حالانکہ ابتدائی طور پر لانگ مارچ کے بارے میں اکثر سیاسی مبصرین اور سیاسی حلقوں کی رائے تھی کہ لانگ مارچ کے نتیجے میں غیرجمہوری قوتیں جمہوریت کو ایک بار پھر تباہ کر دیں گی اور ایک بار پھر ملک پر آمریت مسلط ہو جائے گی۔ لانگ مارچ کے پُرامن ڈراپ سین کا تجزیہ کرنے پر ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں بشمول حکومتی پارٹی پی پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں اور لانگ مارچ کے محرک ڈاکٹر طاہر القادری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ایک مرحلے پر اجتماعی طور پر یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ کسی وقت بھی لانگ مارچ کے شرکاء اور حکومتی اداروں کے درمیان تصادم ہوگا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خون بہنے کا امکان تھا۔ اس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ فوج مداخلت کرے گی اور حکومت پارلیمینٹ اور جمہوریت کا خاتمہ ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لانگ مارچ کے دوران اور دھرنا دینے والے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومتی رہنماؤں اور ساتھ ہی دیگر سیاسی رہنماؤں کے بارے میں جو زبان استعمال کی اور اس کے ردعمل میں جو احکامات وفاقی وزیر داخلہ دیتے رہے اس کی وجہ سے اندیشے ظاہر کئے جاتے رہے کہ تصادم اب ہوا کہ جب ہوا۔ مگر صدر آصف زرداری واقعی قابل تعریف ہے جن کی طرف سے بیانات جاری ہوئے کہ دھرنے کے شرکاء کے خلاف کسی طور پر بھی طاقت استعمال نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح لانگ مارچ اور ڈی چوک پر دیئے گئے دھرنے کے شرکاء بھی واقعی قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، مسلسل پُرامن رہے اور اپنے قائد کی ان ہدایات پر عمل کیا کہ ایک پتّا بھی نہیں توڑا جائے گا۔ واقعی ایسا ہی ہوا یہ لانگ مارچ اور مظاہرہ شاید پاکستان کی تاریخ کا پہلا عوامی مظاہرہ تھا جو شروع سے آخر تک مکمل طور پر پُرامن رہا۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے ایک بات نوٹ کئے بغیر نہیں رہا جاتا کہ ان چار پانچ دنوں کے دوران لانگ مارچ اور دھرنے میں مردوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد شریک رہی اور کئی عورتیں اپنے ساتھ گود میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی ساتھ لائیں۔ یہ حیرت ناک بات ہے کہ خاص طور پر اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بارش بھی ہوئی اور سردی انتہا کو پہنچ گئی مگر مرد، خواتین اور بچے محاذ پر ڈٹے رہے۔ سارے ملک کے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آخر ڈاکٹر طاہرالقادری کی وہ کونسی مقناطیسیت تھی جو اور تو اور ان خواتین اور بچوں کو بھی اپنے گرد روکے رہی۔ کافی مبصرین اس جذبے اور کیفیت کو مذہبی جنونیت کا نام دے رہے ہیں اگر واقعی یہ رائے درست ہے تو یہ جذبہ اور کیفیت خطرناک بھی ہو سکتی ہے جس کے کئی خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ اس منظر کے بعد کئی لوگوں نے اس بات کا نوٹس لیا ہے اور سوال کر رہے ہیں کہ کیا پاکستان واقعی مذہبی جنونیت کے راستے پر کافی آگے نکل گیا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ اگر اس کیفیت کو ڈی فیوز نہیں کیا گیا تو پاکستان شاید آگے جا کے فرقہ واریت کا ایک طاقتور گڑھ نہ بن جائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کو کامیاب کرنے میں ظاہر ہے کہ حکومت کی اتحادی پارٹیوں اے این پی، ق لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے بھی مثبت کردار ادا کیا مگر اکثر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ حکومتی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے مذاکرات شروع کرنے کے لئے ماحول بنانے میں پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ Initiative میاں نواز شریف ہی کا تھا کہ انہوں نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی متعدد پارٹیوں کے رہنماؤں کو ایک جگہ جمع کیا جن میں جہاں جماعت اسلامی، جے یو آئی اور جے یو پی جیسی مذہبی پارٹیاں شامل تھیں وہیں لبرل اور قوم پرست پارٹیاں مثلاً پختون عوامی ملی پارٹی، بلوچستان کی نیشنل پارٹی اور آفتاب احمد شیر پاؤ شامل تھے۔ ان پارٹیوں نے جو دس نکاتی اعلان جاری کیا اس نے ڈاکٹر طاہر القادری کے اکثر غیرآئینی مطالبوں اور لانگ مارچ جیسے غیرجمہوری طریقوں سے حکومت گرانے اور جمہوریت کے خلاف ساری سازشوں کو سختی سے مسترد کر دیا۔ اس طرح نواز شریف اور یہ سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے دفاع میں ایک مضبوط دیوار بن گئیں۔ اس اعلان نے سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اس اعلان کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ اور دھرنا ملک بھر میں سیاسی ہمدردیاں کھو بیٹھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری تیزی سے الگ تھلگ ہونے لگے اس حد تک کہ ان کے امکانی اتحادی عمران خان نے بھی لانگ مارچ میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔ رائیونڈ میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے جو بات چیت کی اس میں سے سندھ میں خاص طور پر محمود خان اچکزئی کے اس ٹھوس اعلان کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے کہ اگر اب کی بار جمہوریت کو کچھ ہوا تو پھر شاید پاکستان کا وفاق بھی برقرار نہ رہ سکے۔ سندھ کے سیاسی مبصرین کے مطابق یہ کہہ کر اچکزئی نے ملک کے چھوٹے صوبوں اور خاص طور پر سندھ کے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ سندھ کے سیاسی مبصرین شروع سے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کو کلی طور پر ”پنجاب شو“ قرار دے رہے تھے کیونکہ ان کی رائے کے مطابق لانگ مارچ پنجاب کے تخت لاہور سے نکالا گیا اور پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا اور لانگ مارچ یا دھرنے میں سندھ اور بلوچستان کے عوام کی شرکت تو بالکل نہیں تھی مگر کے پی کی نمائندگی بھی برائے نام تھی۔ جب دھرنا چل رہا تھا تو سندھ کے اکثر سیاسی حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ ہر دور میں پنجاب سے ہی طوفان کیوں اٹھتے ہیں جو حکومتیں گراتے ہیں اور جمہوریت کوختم کیا جاتا ہے کیا دیگر صوبوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر کوئی تبدیلی آتی ہے تو اول تو وہ جمہوری طریقے سے کیوں نہیں لائی جاتی دوم اگر کوئی تبدیلی لانی ہے تو دیگر صوبوں کی آراء کو بھی شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔ سندھ کے کچھ دانشوروں نے نجی بات چیت کے دوران اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ میاں نواز شریف نے لانگ مارچ پر غور کرنے کیلئے سیاسی رہنماؤں کا جو اجلاس طلب کیا اس میں سندھ کے قوم پرست رہنماؤں میں سے کیوں کوئی بھی نہیں تھا؟ کیا نواز شریف نے سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کو مدعو کیا مگر ان میں سے کوئی بھی اس اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے نہیں آیا یا سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کو اس اجلاس میں شرکت کرنے کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ عام رائے یہ ہے کہ نواز شریف نے اس اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے سندھ سے کسی قوم پرست رہنما کو مدعو ہی نہیں کیا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ بات واقعی حیرت ناک ہے جبکہ اس وقت نواز مسلم لیگ نے نہ فقط جی ایم سید کے پوتے سید جلال محمود شاہ کی پارٹی ایس یو ٹی سے اتحاد کیا ہوا ہے مگر ظاہری طور پر نواز شریف کچھ قوم پرست پارٹیوں مثلاً ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی اور رسول بخش پلیجو، ایاز لطیف پلیجو کی پارٹی عوامی تحریک کے بھی کافی نزدیک سمجھے جاتے ہیں کیا یہ تاثر درست ہے کہ نواز شریف اور اس کی پارٹی نے بھی سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کو دل سے قبول نہیں کیا اور ان پارٹیوں کے ساتھ نواز شریف کی قربت محض دکھاوے اور وقتی نوعیت کی ہے تاکہ سندھ میں اپنے لئے ایک سیاسی Base پیدا کیا جا سکے۔ کچھ سیاسی مبصرین نے اس بات کو بھی نوٹ کیا ہے کہ رائیونڈ میں نواز شریف کی طرف سے منعقد کئے گئے ہی اس اجتماع میں پنجاب کا لیفٹ بھی غیرموجود تھا۔ مثال کے طور پر اس اجلاس میں عابد حسین منٹو اور عاصمہ جہانگیر کو بھی بلایا جا سکتا تھا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ لیفٹ کے ان رہنماؤں اور سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کی اسی اجلاس میں غیرموجودگی شاید اس وجہ سے ہے کہ نواز مسلم لیگ کا واضح Tilt دائیں بازو کی طرف ہے اور وہ خود کو بائیں بازو سے ایک فاصلے پر رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح شاید سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ ان کا زیادہ ملنا جلنا بھی پنجاب کے شاونسٹ حلقوں کو پسند نہ آئے۔
تازہ ترین