• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشتون بزرگوں کا کہنا ہے کہ اگر فریقین میں رسہ کشی کے دوران ایک فریق مات کے قریب پہنچ گیا ہو، لیکن مقصود صلح ہو تو ایسے فریق کیلئے ”آٹے کی ناک“ بنا دی جائے یعنی اسے سبکی سے بچانے کیلئے یہ ظاہر کیا جائے کہ مخالف فریق سے اس کی صلح برابری یا پھر اسی کی شرط پر ہو رہی ہے، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے کہ ہار کو قریب آتے دیکھنے والا فریق بھی جانتا ہے کہ اب صلح کے ماسوا کوئی چارہ نہیں ہے لیکن وہ یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا کہ صلح اس کے بچاؤ کی ناگزیر ضرورت ہے۔ یہی کچھ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہوا، وگرنہ مذاکراتی ٹیم اور خود ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ مبینہ طور پر ”یزیدیت“ سے برسر پیکار کس طرح جذبہ شوق شہادت رسوا سربازار کرتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے ہیں !!
ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اس شو کے نتیجے میں کئی نکات پھر اُبھر کر سامنے آگئے ہیں جن میں سب سے مایوس کن نکتہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں انقلاب ایک ایسا بے توقیر خواب بن کر رہ گیا ہے جسے اب صرف نعروں کیلئے استعمال کیا جاتا رہے گا، وجہ یہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر قادری اسلام آباد کو تحریر اسکوائر نہ بنا سکے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی ایسی قدآور شخصیت یا جماعت نہیں ہے جو مسلک، فرقے، علاقائیت یا گروہی حصار سے باہر ملک بھر میں ایک ایسی مقبول و محترم حیثیت کی حامل ہو، جس کی قیادت میں بلا امتیاز اور تفریق کے عوام برسر پیکار ہو سکیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے بڑا شو عمران خان اور اس سے بھی بڑا مارچ مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، جے یو آئی، اے این پی، پختونخوامیپ یا پیپلز پارٹی کر سکتی ہے لیکن یہ مخصوص سوچ و فکر یا پھر مفاد پرست حاملین کا ایسا شو ہو گا جو ملک کے عوام کیلئے تو کیا ہر دوسری جماعت کیلئے ناقابل قبول ہو گا، باالفاظ دیگر ہر جماعت کا مارچ و دھرنا ایسا دکھاوا ہو گا جسے خاص صوبے، شہر یا علاقے یا ایک دو صوبوں کے مخصوص علاقوں میں تو پذیرائی مل جائے گی لیکن یہ ملک بھر کے عوام کا نمائندہ نہیں کہلایا جا سکے گا۔ بات کو زیادہ واضح کرنے کیلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی لینن، ماؤزے تنگ، نیلسن منڈیلا یا امام خمینی نہیں ہے تو پھر انقلاب کیونکر برپا ہو سکے گا !!؟ یہ درست ہے کہ تاریخ کے جبر تلے گردش لیل و نہار اپنی راہ خود نکال لیتے ہیں لیکن بہرصورتف اس طرح کے کوئی شواہد برسر زمین موجود نہیں ہیں، مزید یہ کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انقلاب کی زد میں سب سے پہلے خائف اور استحصالی و رجعت پسند آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تاحال نہ صرف یہ کہ یہ سب طاقت کی انتہا پر ہیں بلکہ انہیں تقدیس کا ایسا ”ہنر“ میسر ہے کہ ان کیخلاف اٹھنے والی ہر آواز اسلام، نظریئے یا ملکی سلامتی کے فتوؤں کے بار تلے دب کر رہ جاتی ہے۔
بنابریں معروضی صورتحال میں ملک و عوام کیلئے بہتر رات وہی ہے جس پر ان دنوں ”بظاہر“ اجماع ہے یعنی جمہوریت اور اس کی ناگزیر ضرورت انتخابات … یوں تو مروجہ نظام کو بھی کلی طور پر جمہوری نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی جمہور (عوام) کے ہڈی پسلیاں ایک کر دی ہیں لیکن یہ امید تو پھر بھی ہے کہ بھارت کی طرح اگر جمہوری نظام تسلسل کی راہ لیتا ہے تو بہت جلد نہ سہی لیکن بالآخر جمہوری نظام کے کرشمے ظہور پذیر ہو کر رہیں گے اور اس طرح پاکستانی عوام ان ثمرات سے مستفید ہو سکیں گے دیگر جمہوری ممالک کے عوام جن سے فیضاب ہو رہے ہیں یعنی برائی جمہوریت کے باعث نہیں، اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے اور اس برائی کو ختم کرنے کے امکانات بہرصورت موجود ہیں۔
قادری صاحب کے طرز عمل کیخلاف جمہوریت پسندوں کا گٹھ جوڑ خوش آئند ہے لیکن نہ جانے کیوں ایک شہری کے طور پر راقم کے ذہن میں ایک سوال موجود ہے کہ جب کل کو خدانخواستہ کوئی جرنیل اس لولی لنگڑی جمہوریت کا گلا دبانے کیلئے سینہ تانے میرے عزیز ہم وطنو کہتے ہوئے نمودار ہو گا تو ایسے عالم میں ق لیگ، ملّا ملٹری الائنس والے، نواز شریف کی چھتری تلے حال ہی میں خراماں خراماں چلے آنے والے ابن الوقت عناصر اور نوخیز انقلابی نہ جانے آمر کیخلاف اسی طرح سینہ سپر ہو جائیں گے جس طرح تحریک منہاج القرآن کے ”نہتے“ کارکنوں کیخلاف ہو گئے تھے !!؟ اور صحافت کے ان گدی نشینوں کا کیا حال ہو گا جو معین قریشی، شوکت عزیز سمیت دیگر غیر ملکی آلہ کاروں کے گن گانے کیلئے تو جواز تراشتے رہے لیکن جن کے منہ کا ذائقہ ”شیخ الاسلام“ کی کینیڈین شہریت کے بلاناغہ تذکرے سے بدمزہ نہ ہو سکا !!
تازہ ترین