• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ دو ماہ کے لئے اسٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی، جس کا پیر کو اعلان کیا گیا ابتر ملکی معیشت کے تناظر میں مثبت اورمنفی دونوں طرح کے مضمرات کی عکاسی کرتی ہے۔ بنک کی پالیسی رپورٹ میں جہاں بعض پریشان کن اشاریوں کا ذکر ہے وہاں مستقبل میں معاشی حالات بہتر ہونے کی امید بھی دلائی گئی ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر، ایندھن کی قیمتوں، غذائی اشیاء کے نرخوں اور خام مال کی لاگت میں اضافے سے مہنگائی پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی ہو گئی ہے جو اگلے 6ماہ میں مزید بڑھے گی۔ یہ صورت حال آئندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں متوقع ردوبدل، بجلی و گیس کے نرخوں میں ممکنہ تبدیلیوں اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں امکانی تغیر سے بھی مشروط ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے جو پچھلے سال کی اوسط شرح 3.8 سے بڑھ کر7فیصد ہو چکی ہے۔ بنک نے ایک اہم مگر غیر مقبول فیصلہ شرح سود میں1.5فیصد اضافے کی صورت میں کیا ہے جس سے یہ شرح10.75 سے بڑھ کر 12.25فیصد ہو گئی ہے جو ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارے ڈالر کے نرخ اور شرح سود میں غیر معمولی اضافے سے پہلے ہی ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے بنک ریٹ میں اضافے کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کاروباری برادری نے بھی اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھے گی اور ہماری برآمدات عالمی منڈیوں میں دوسرے ملکوں کی نسبتاً سستی اشیاء کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف برآمدی پیداوار متاثر ہو گی بلکہ برآمدی حجم کم ہو گا مالیاتی خسارے میں اضافہ ہو گا اور بیروزگاری بھی بڑھے گی۔ تاہم اسٹیٹ بنک کے جائزے میں تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہےکہ مانیٹری پالیسی سخت ہونے اور شرح سود بڑھنے کے باوجود نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے شرح نمو میں بہتری کے امکانات ہیںاور برآمدی حجم بھی بڑھ رہا ہے ۔بعض مالی ماہرین نے بھی شرح سود بڑھانے کے فیصلے کو معیشت کے لئے فائدہ مند قرار دیا ہے، بنک کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ روپے کی قدر مستحکم کرنے،افراط زر روکنے اور مہنگائی کے دبائو پر قابو پانے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 3ماہ کی ادائیگی سے بھی کم یعنی صرف8.8ارب ڈالر رہ گئے ہیں حکومت مالیاتی خسارہ اسٹیٹ بنک سے 4.8کھرب روپے کا قرضہ لے کر پورا کر رہی ہے کمرشل بنک حکومت کو قرض دینے سے ہچکچکا رہے ہیں محاصل کی وصولی میں کمی، بجٹ سے بڑھ کر سودی ادائیگیوں اور امن و امان کے اخراجات کی بنا پر مالیاتی خسارہ گزشتہ سال کی نسبت اس مرتبہ خاصا بلند رہنے کا امکان ہے۔ اس وقت معاشی نمو سست ہے لیکن اگلے سال اس میں کسی قدر تیزی کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں امید ہے کہ معاشی استحکام بحال ہو گا۔ بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور ترقی کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ29فیصد کم ہوا ہے اور ترسیلات زر بڑھ گئی ہیں۔ مجموعی طور پر اگلے دو ماہ کے لئے اسٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی کئی مشکلات اور ناکامیوں کی نشاندہی کے باوجود حوصلہ افزا ہے۔ اس میں معاشی بہتری کے لئے بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں مثلاً برآمدی شعبوں میں پیداواری صلاحیت اور مسابقت بہتر بنانے اور تجارتی توازن ٹھیک کرنے کے لئے بھرپور ساختی اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک ایک خود مختار ادارہ ہے جو مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ملکی معیشت اور مالیاتی پالیسی کی نگرانی کرتا ہے۔ توقع ہے کہ اس کے مشاہدات اور سفارشات کی روشنی میں موثر حکومتی اقدامات سے ملک اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔

تازہ ترین