• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ اگر کوئی بات بار بار کان میں ڈالی جائے تو وہ دل میں گھر کر لیتی ہے، بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یقین سے قبل تحقیق کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں مذہبی منافرت کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ وطن عزیز ہی کیا یہ قصہ تو اس کے قیام سے بھی کہیں قبل شروع کروایا گیا، مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کا عمل 1857کے بعد تیز تر کر دیا گیا چند ایسی کتابیں سامنے آئیں یا لائی گئیں جن میں بعض ترجمہ شدہ تھیں اور باقی تصانیف، ان کتب کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے لیکن ان کتابوں نے خطے میں ایسا کہرام مچایا کہ مسلمانوں کی تمام تر توجہ عصری علوم سے ہٹ کر محض مباہلوں، مجادلوں اور مناظروں تک رہ گئی۔ گزشتہ حکومت نے درجنوں کتب پر پابندی عائد کی لیکن یہ احسن اقدام اِس لئے بے معنی ہوگیا کہ یہ پابندی ان کتب پر لگائی گئی جو وجہ نزاع بننے والی کتب کی حمایت یا مخالفت میں تھیں، صوبہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وفاقی وزیر داخلہ سمیت اعلیٰ سطحی اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے انتہائی اہم ہیں کہ جنوبی پنجاب کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تاہم یہ معاملہ ایسا سادہ اور سہل بھی نہیں۔ دنیا بھر میں خاص طور پر ایسے لٹریچر کی اپنے ملک آمد روکی جاتی ہے جس سے احتمال فساد ہو لیکن ہمارے ہاں عمل اس کے برعکس ہے، کتنے بڑے بڑے اشاعتی ادارے کام کر رہے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں! دوسری بات کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کوئی لٹریچر مبنی بر منافرت ہے؟ علماء کرام کو اگر ایسی کسی سکروٹنی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا تو کیا نتائج برآمد ہوں گے’’عقلمنداں را اشارہ کافی است‘‘۔ اشتعال انگیزی اور منافرت کے خلاف حکومتی اقدام احسن ہے لیکن مفید تبھی ہو گا جب ماضی کے برعکس سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔ ہر وہ آواز دبا دی جائے جو افتراق اُمہ کا سبب بنے اور ہر وہ تحریر ضبط کی جائے جو لوگوں کو مشتعل کرنے کا باعث بن سکتی ہو۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین