• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے قومی معاصر کے مشہور زمانہ کالم نگار جاوید چوہدری کو ان دنوں ایک انٹرویو میں بہت بامعنی، پُر زور اور طاقتور خیالات کا اظہار کیا، کچھ کہنے سے پہلے اُن کے خیالات کے مرکزی نکات پر ایک نظر ڈالتے چلیں۔

چیئرمین نے کالم نگار سے کہا ’’مالم جبہ کا ریفرنس بہت تگڑا ہے اور پرویز خٹک بھی جلد لاک اپ کے پیچھے ہوں گے۔ یہ تمام لوگ مجھے برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ بھی مجھ سے خوش نہیں، یہ بھی چاہتے ہیں عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس بند ہو جائے، بابر اعوان کا ریفرنس، علیم خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف تفتیش اور سب سے بڑھ کر پرویز خٹک کے خلاف مالم جبہ کی غیر قانونی لیز رک جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ کی قیادت مجھے ویسے ہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے، لینڈ گریرز بھی میرے خلاف ہیں اور ریاستی ادارے بھی خوش نہیں ہیں، مالم جبہ ریفرنس اب چند دن کی بات ہے، ریفرنس مکمل ہو چکا ہے۔ آپ بہت جلد پرویز خٹک کو بھی لاک اپ میں دیکھیں گے۔ میں صرف پرویز خٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں، یہ اگر گرفتار ہو گئے اور انہیں اگر کچھ ہو گیا تو نیب مزید بدنام ہو جائے گا لیکن اس کے باوجود یہ ہو کے رہے گا‘‘۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے، گزشتہ دنوں چیئرمین نیب نے کہا تھا ’’کفن کی جیب نہیں ہوتی‘‘، ظاہر ہے، اِس سے مقصد اِس دنیا کے فانی ہونے اور انسان کا اپنے اعمال کے علاوہ ہر شے یہاں چھوڑ جانے کی جانب توجہ دلانا تھا، ایک ایسی سچائی اُنہوں نے بیان کی جس کے قیام کے لئے خالقِ کائنات نے پیغمبر بھیجے، اولیا، صوفی، ابدال، قطب اور اللہ کے برگزیدہ بندوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں، کون ذی شعور چیئرمین نیب کی بیان کردہ اِس سچائی کا منکر ہو سکتا ہے، سوائے بدنصیب لوگوں کے۔ افسوس کہ انسان کو اپنا کفن یاد نہیں رہتا اور وہ جانے کون کون سی جیبیں بھرتا رہتا ہے۔ ایک روایت ہے بلکہ واقعہ ہے، مجھے پاکستان کے ایک مستند ایڈیٹر نے سنایا تھا، وہ ضیاءالحق کے پاس بیٹھے تھے، باتیں پتا نہیں کہاں سے چلیں ایک موڑ ایسا آیا جب مجلس میں کہا گیا ’’بارہ بجے زوال کا وقت ہوتا ہے‘‘ جس پر ضیاء صاحب نے کہا ’’یہ ہی انسان کو یاد نہیں رہتا‘‘۔

چیئرمین نیب سے کالم نگار نے جب پوچھا ’’آپ کی کلہاڑی صرف سویلین پر چلتی ہے؟‘‘ وہ تڑپ کر بولے ’’میں نے اپریل 2018میں جنرل جاوید اشرف کے خلاف رائل پام گالف کلب ریفرنس بنایا۔ کیا یہ سویلین ہے؟ یہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں، میرے ساتھیوں نے مجھے روکا لیکن میں نے اُن سے کہا ہم اگر اِنہیں چھوڑ دیتے ہیں تو پھر بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کا کیا قصور ہے؟ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بھی ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام آئے، ہم نے اُن کے خلاف بھی انکوائری شروع کر دی، یہ بھی حوالات میں جائیں گے۔

چیئرمین نیب کے جذبات، انکشافات اور احساسات کو قطعی طور پر سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ یہ اپنی جگہ لیکن جس روز چیئرمین نیب سے بات چیت کے یہ نکات شائع ہوئے اُس روز آصف علی زرداری نے نیب پر واضح کیا کہ نیب کو آخری مرتبہ دستیاب ہوں۔ ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا کہ اب نیب نہیں ہو گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’یا نیب رہے گا یا پاکستان کی معیشت‘‘۔ اُنہوں نے کہا ہر ایک کے پاس بلیک منی اور بزنس اکائونٹس ہیں۔ نیب ذرائع کے مطابق آصف زرداری جعلی اکائونٹس کو بزنس اکائونٹس قرار دیتے رہے۔ ذرائع کے مطابق نیب پیشی پر آصف زرداری شدید غصے میں تھے۔

گویا نیب کے چیئرمین کے نظریات اپنی جگہ، ان کے موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تاہم ان کا پس منظر ایسا نہیں جس پر انگشت نمائی ہو سکے، دوسری طرف آصف علی زرداری کی ’’کہانی‘‘ کا یہ جملہ ’’یا نیب رہے گا یا پاکستان کی معیشت‘‘، نیب اور عمران خان کے نظریات کی روشنی میں عملاً سو فیصد ’’صداقت‘‘ پر مبنی ہے، نیب کے ادارے اور عمران خان کی بین الاقوامی تقاریر نے پاکستان کی معیشت کا پورا ڈھانچہ کھڑکھڑا کے رکھ دیا ہے، ہو سکتا ہے آپ خلوص سے ہی اصلاح احوال کر رہے ہوں مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے طریق کار کی ترتیب تباہ کن ہو اور آصف زرداری کے جملے کا صرف یہی مطلب ہے۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش پاکستانی تاریخ کی روشنی میں کوئی انوکھی داستان نہیں، یہ سیاسی تاریخ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی، ابھی تک اس کی نوعیت اور اسباب میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ پاکستان میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار حکومت کے اپنے نتائج ہیں جن پر پورا سچ نہ کسی کے علم میں ہے اور جتنا سچ علم میں ہے وہ بولا نہیں گیا۔ اگر بولا گیا تب اس کی تعبیر انہی ذات کے تعصبات کی بنیاد پر سامنے لائی گئی، اس طرح پاکستان کی منتخب حکومتوں کی تاریخ حد درجہ افسوسناک ہے، منتخب حکومتوں کو جن مراحل سے گزرنا پڑا، ان پر پتہ نہیں کتنی کتابیں لکھی جا چکیں اور کیا کیا ہوشربا واقعات بکھرے پڑے ہیں۔

یہ نظریہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لئے ’’آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ پر مبنی ہے، اس نظریے کے مطابق پاکستان کی بقا موجودہ پارلیمانی جمہوری تسلسل ہی سے وابستہ ہے، خود وزیراعظم عمران خان نے ’’صدارتی نظام‘‘ کی باتوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا معلوم نہیں یہ کہاں سے نکل پڑا ہے، کہنے کا مقصد یہ ہے، عمران خان منتخب حکومت کے وزیراعظم ہیں، انہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنا چاہئے، ساتھ ہی تحریک انصاف کی منتخب حکومت اپوزیشن کے سلسلے میں اپنے بے پناہ متشدد رویے میں فوری طور پر تبدیلی لائے۔

تازہ ترین