• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے ساتھ تجارت میں یقیناً اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مگر اِس تجارت کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔ یہ تجارت پاکستان سے خواتین کی چین اسمگلنگ ہے، جس کی بازگشت آج کل پورے ملک میں گونج رہی ہے۔ اس گھنائونے دھندے کا انکشاف اُس وقت ہوا جب ایک نوجوان پاکستانی لڑکی جو ایک چینی نوجوان سے شادی کے بعد چین منتقل ہوگئی تھی، نے اپنے والد کو مطلع کیا کہ شادی کے نام پر اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور اسے اس کا چینی شوہر جسم فروشی پر مجبور کررہا ہے۔ بعد ازاں یہ شکایت لڑکی کے باپ نے چین میں پاکستانی سفارتخانے سے کی جس کے تعاون سے لڑکی کو بازیاب کروا کر پاکستان بھجوایا گیا۔ پاکستان پہنچنے پر لڑکی نے ایف آئی اے کو اپنی روداد میں بتایا کہ کئی پاکستانی لڑکیاں جنہیں شادی کی آڑ میں دھوکہ دے کر چین لے جایا گیا تھا، وہاں اِسی طرح کے حالات کا سامنا کررہی ہیں۔ مذکورہ انکشاف کے بعد ایف آئی اے نے جسم فروشی میں ملوث ایک گروہ کے 12ارکان کو گرفتار کیا جو پاکستانی لڑکیوں کو شادی کی آڑ میں چین لے جاتے تھے۔ گرفتار کئے جانے والے افراد میں سے 8کا تعلق چین اور 4کا پاکستان سے تھا۔ ایف آئی اے کی تفتیش کے دوران 1500سے زائد چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادی کا انکشاف سامنے آیا اور لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے والے گینگ نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ پنجاب میں غیر قانونی رشتہ مراکز کے ذریعے پسماندہ طبقے کی مسلمان اور عیسائی لڑکیوں کے خاندان کو شادی کی پیشکش کرتے تھے جبکہ مسلمان لڑکیوں کےخاندانوں کو چینی لڑکے کے اسلام قبول کرنے کی جھوٹی یقین دہانی کرائی جاتی تھی۔ اسمگلروں کے بقول شادی کے بعد لڑکیوں کو چین لے جاکر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا اور بات نہ ماننے پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ کچھ لڑکیوں کو اپنے جسمانی اعضا سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے تھے۔ یہ لڑکیاں یا تو جعلی شادیوں کا شکار ہوئیں یا والدین کی طرف سے شادی کے نام پر فروخت کردی گئیں۔ گھنائونے دھندے میں ملوث جرائم پیشہ افراد کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام منظم گروہ کے طور پر کررہے تھے جبکہ انہیں اس سلسلے میں مقامی لوگوں کی مدد بھی حاصل تھی اور یہ سب کچھ سرکاری اداروں کی موجودگی میں ہوتا تھا۔

مذکورہ واقعات سامنے آنے کے بعد پاکستان میں چینی سفارتخانے نے بھی تسلیم کیا کہ کچھ غیر قانونی رشتہ مراکز پاکستانی اور چینی نوجوانوں کو سرحد پار شادی کے نام پر دھوکہ دے کر منافع کمارہے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’’انٹرنیشنل واچ ڈاگ‘‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے گروہوں کا مرکز بن چکا ہے، انسانی اسمگلرز پاکستانی خواتین کو اچھے مستقبل کا خواب دکھا کر کافی عرصے سے مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک اسمگل کررہے ہیں جہاں عورتوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے اور جب یہ عورتیں اس گھنائونے دھندے کا حصہ بن جاتی ہیں تو اُن کا اس دلدل سے نکلنا ناممکن ہوجاتا ہے اور وہ ہمیشہ کیلئے انسانی اسمگلروں کی قیدی بن کر رہ جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ پاکستانی پروموٹرز لڑکیوں کو پرفارمنس کے نام پر خلیجی ممالک لے جارہے ہیں جہاں اُنہیں مساج پارلر اور ہوٹلوں میں گھنائونے دھندے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا قریبی دوست ملک ہے، پاکستان اور چین اہم اسٹریٹجک اتحادی ہیں اور سی پیک منصوبہ گیم چینجر ہے تاہم پاکستان اور چین مذہبی و ثقافتی طور پر دو مختلف اقوام ہیں۔ انسانی اسمگلنگ اسکینڈل کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں، وہ انتہائی دردانگیز ہیں جس نے ہمارے قومی تشخص، وقار اور سماجی روایات کی ٹوٹ پھوٹ پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ چین میں 2015تک رائج ’’ایک جوڑا، ایک بچہ‘‘ پالیسی تھی۔ اس پالیسی کے سبب چین میں بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دینے کا رواج فروغ پایا اور بیٹی کی پیدائش سے قبل اسقاط حمل کا سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا جس نے چین کے خاندانی نظام کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور نتیجتاً عورتوں اور مردوں کی تعداد میں عدم توازن پیدا ہوا۔ ایسی صورتحال میں چینی مرد شادی کی غرض سے پاکستان سمیت دوسرے ممالک کی لڑکیوں کا انتخاب کرنے لگے جس میں کئی ایسے گروہ بھی سرگرم ہوگئے جو شادی کی آڑ میں لڑکیوں کو چین اسمگل کرکے اُن سے جسم فروشی یا اُن کے جسمانی اعضاء فروخت کرنے لگے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے باعث لوگوں بالخصوص خواتین میں احساس محرومی جنم لے رہا ہے اور خواتین کی بڑی تعداد بہتر مستقبل کی اُمید لگائے ملک سے باہر جانے کے خواب دیکھ رہی ہیں جس کا فائدہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ اٹھارہے ہیں۔ بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں، والدین کا بیٹیوں کے رشتے کرتے وقت آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اُنہیں جان بوجھ کر اجنبیوں کے حوالے کرنا لالچ اور دولت کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ شادی کے نام پر پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ چین میں جو انسانیت سوز سلوک ہوا، وہ انتہائی قابل مذمت ہے تاہم انسانی اسمگلنگ کے اس تجارت میں صرف چینیوں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں بلکہ اس معاملے میں لڑکیاں اور اُنکے والدین بھی برابر کے شریک اور قصور وار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سنگین مسئلے پر توجہ دے جو ایک ٹریڈ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس ٹریڈ میں ملوث جرائم پیشہ افراد کو بے نقاب کرکے عبرتناک سزا دے اور ایسی قانون سازی کرے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں جو عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بنیں۔

تازہ ترین