• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے قدامت پرست ری پبلکنوں میں آج کل دوڑ لگی ہوئی ہے کہ جلدی سے جلدی اسقاطِ حمل کے قانون کو ختم کر دیا جائے: یہ سارا دھندہ امریکہ کی پس ماندہ جنوبی ریاستوں کے سفید فام مرد کر رہے ہیں۔ اُن کا بنیادی مقصد عورتوں کی 1960کے بعد سے حاصل کی گئی آزادیوں کو ختم کرنا اور زمانہ قدیم کے ’مرد شاہی‘ نظام کی بحالی ہے۔ جس رجعت پسند تحریک کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے ہیں اُس کا بنیادی مقصد امریکہ میں دمِ آخر پر آئی ہوئی سفید فام اکثریت کو قائم رکھنا ہے اور دنیا بھر میں اپنی نسل کی اجارہ داری جاری رکھنے کے لئے چین کی طرح کا جو بھی مُلک سر اٹھانے کی کوشش کرے اُسے مختلف ہتھکنڈوں سے دبانا ہے۔ اسی مقصد کے لئے باہر سے آنے والے تارکین وطن کے راستے بند کرنا اور انہیں ملک بدر کرنا ہے۔ اندرونی طور پر غریب عوام کو ملنے والی صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ارب پتیوں کا تحفظ کرنا ہے۔ یہی یورپ کی ابھرتی ہوئی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈا ہے اور کسی حد تک ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ اسی پس منظر میں غالب کا شعر یاد آیا اور اس میں ترمیم کے لئے ’زوال‘ اور ’وبال‘ جیسے الفاظ ذہن میں آئے۔ ’زوال‘ اس لئے مناسب نہیں لگا کہ عالمی سطح پر معاشی ترقی کی رفتار کافی تیز رہی ہے اور اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں لیکن اس ترقی کے نتیجے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ’وبالِ جان‘ بن چکا ہے۔

امریکہ اور یورپ کے تذکرے کے دو عوامل ہیں۔ اولین تو یہ کہ بہت ہی بنیادی سطح پر پاکستان اُن ملکوں کی پیروی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1980میں صدر رونلڈ ریگن نے جو معاشی ماڈل ترتیب دیا تھا، پاکستان آج تک اُس پر کاربند ہے۔ اِس ماڈل کی بنیاد امیروں کو سہولتیں فراہم کرنا اور ہر شعبے پر نجی سیکٹر کا قبضہ کروانا تھا۔ پاکستان میں 1980سے لے کر اب تک امیروں کی تعداد اور ان کی دولت میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے اور صحت و تعلیم جیسے شعبوں میں بھی نجی سیکٹر قبضہ جما چکا ہے: پاکستان کی داستان میں مذہبی انتہا پسندی کا شور و غوغا محض سائڈ شو تھا اور اصل میں امیروں کو فیضیاب کرنے والے معاشی نظام کا قیام تھا۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ عین شدید دہشت گردی کے دور میں امیروں کی تعداد اور دولت میں اتنا اضافہ ہو جاتا؟

’عالم تمام‘ کے تذکرے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات اپنے آپ کو سمجھنے کے لئے ارد گرد پھیلے ہوئے جہانِ رنگ و بو کا مشاہدہ کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ بابا فرید کا ایک دوہا ہے:

میں جانیا دُکھ مجھی کو دُکھ سبھائے جگ

اُپر چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ

(میں سمجھا تھا کہ صرف میں ہی دکھی ہوں لیکن سارا جہان دکھی ہے۔ جب بلندی سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ہر گھر میں ایک جیسی آگ بھڑک رہی ہے)

بابا فرید یہ شعر پاکپتن میں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں نہیں لکھ رہے تھے بلکہ وہ پورے عالم کی بات کر رہے تھے۔ وہ مختلف مذاہب کے تحت انسانوں کو تقسیم کرنے کو فکری سطح پر رد کر رہے تھے۔ اگر اسی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے سوچیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ایسا کیا ہوا ہے کہ تقریباً ہر معاشرہ ایک ہی جیسے ’وبال‘ کی زد میں آگیا ہے۔ جو بات سب سے زیادہ واضح نظر آتی ہے وہ تو یہ ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں پیداوار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک تاریخی انقلاب آیا ہے، جس سے کسی نہ کسی طرح دنیا کا ہر شخص متاثر ہوا ہے۔ اِس انقلاب نے نہ صرف مادی زندگی اور روزمرہ کے رہن سہن کو یکسر تبدیل کردیا ہے بلکہ ذہنی حالتوں کو بھی تہہ و بالا کردیا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے قومی مذہب پرستوں سے لے کر امریکہ کے قدامت پرستوں تک مزید کوتاہ نظری کے بھنور میں پھنستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہاں البتہ پوری دنیا میں امیروں کا امیر تر ہونے کا رجحان قدر مشترک ہے۔ اگر بغور دیکھیں تو علیحدگی پسندی کے اس متضاد ردعمل کو سمجھا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے اور ہوا بھی یہی ہے کہ تیزی سے آفاقی انسان کے معرضِ وجود میں آنے کے بڑھتے ہوئے امکانات نے پرانی شناختوں کو متزلزل کر دیا ہے۔ روشن خیالی اور وسیع النظری کی آرزوئوں کے اظہار نے سوچ کے پرانے ڈھانچوں کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کی ’می ٹو‘ تحریک سے لیکر پاکستانی خواتین کی آزادی کے مطالبات نے مردوں کی برتری کو چیلنج کر دیا ہے۔ آزاد اور کشادہ طرزِ زندگی نے پرانی اخلاقیات کی جڑیں ہلا دی ہیں۔ مزدوروں اور کارکنوں کی وسیع نقل مکانی نے روایتی نسل پرستی کے خاتمے کی بنیادیں مضبوط کر دی ہیں۔ اس طرح کی نئی طاقتوں کے ابھار کے رد عمل میں دنیا بھر کے قدامت پرست شمشیر بکف نظر آ رہے ہیں۔

لیکن اس کے اُلٹ دیکھیں تو جہان نو کی نشو ونما کو کوئی روک نہیں پا رہا۔ امریکہ کی ہی مثال لیں جہاں ایک ریاست نیواڈا میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی اور سینیٹ میں عورتیں اکثریت میں ہیں۔ امریکہ کی قومی اسمبلی (کانگریس) اور سینیٹ میں عورتوں کی تعداد بلند ترین سطح پر ہے۔ پاکستان میں اِدھر اُدھر نظر دوڑا کر دیکھیں تو باوجود مذہبی قدامت پرستی کے عورتیں ہر شعبے میں پہلے سے کہیں آگے ہیں۔ شہروں کی طرف نقل مکانی سے ذات پات کا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے: بڑے شہروں میں کس کو پرواہے کہ آپ گاؤں میں کمی تھے یا چھوٹے موٹے چوہدری۔ اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آخرش نئے رجحانات نے ہی فتحیاب ہونا ہے: کب اور کتنے وقت میں؟ یہ بتانا مشکل ہے!

تازہ ترین