• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہری کا احتساب عدالت کے جج پر تشدد اور اغوا کا الزام

راولپنڈی(شکیل انجم)ایک شہری نے احتساب عدالت کے جج پر اسے تشدد کا نشانہ بنانے،اغوا کرنے اور اس کے ساتھا غیر انسانی سلوک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ متاثرہ شہری کے جج کی اہلیہ کے ساتھ مبینہ طورپر ناجائز تعلقات تھے۔جبکہ پیر ودہائی پولیس کو دیئے گئے ایک تحریری شکایت کے مطابق 18سالہ نوجوان کو کچھ لوگوں نے اغوا کیا تھا۔نوجوان نے بتایا کہ اغوا کرنے والے تمام لوگ ایک سیاہ گاڑی اور ایک پولیس گاڑی میں سوار تھے ۔متاثرہ نوجوان نے بتایا کہ ایک پولیس اہلکار گاڑی سے نکل کر آیا اور اپنا محکمہ کا کارڈ دکھاتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور میرے انکار کرنے پر اس نے مجھے مارنا شروع کردیااور زبردستی گاڑی میں دھکیل دیابعد ازاں مجھے راولپنڈی میں واقع جج کے گھر لے جایا گیا۔متاثرہ نوجوان نے بتایا کہ میں ایک بنک ملازم ہوں ۔میں نے ان سے اپنا قصور معلوم کیا کہ مجھے کیوں اغوا کیا گیا ہے لیکن وہ خاموش رہے اور مجھے کچھ نہیں بتایا۔جیسے ہی میں جج کے گھر میں داخل ہوا انہوں نے مجھے مارنا شروع کردیا۔گھر میںجج اورپولیس والوں کے ساتھ اور بھی لوگ موجود تھے۔جج نے ہاتھ میں ایک راڈ اٹھا رکھی تھی ،دوسرے کے ہاتھ میں پلاسٹک پائپ تھا جبکہ تیسرے کے ہاتھ میں چمڑے کا پٹا تھا ۔ان سب نے مجھے مارنا شروع کردیا۔اس کے بعد مجھے بجلی کا کرنٹ بھی لگایا گیا۔تشدد کے بعد مجھے برہنہ کردیا گیا۔انہوں نے فرش پر تھوکا اور اسے چاٹنے کیلئے کہا گیا۔وہ میرے بھائی اور ماں کو قتل کرنے کی بھی دھمکیاں دیتے رہے۔تشدد سے جب میں بیہوش ہوگیا تو انہوں نے مجھ پر پانی ڈال کر ہوش دلایا ۔بعد ازاں جج نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ اسے اٹھاکر باہر پھینک دیا جائے۔انہوں نے مجھے ملک چھوڑنے کا بھی کہا ۔میرے والد نے ریسکیو 1122کو فون کیا۔ بعد ازاں پولیس بھی آگئی اور وہ مجھے ہسپتال لے گئے۔نوجوان نے کہا کہ میں نے اپنی تحریری شکایت جمع کرادی ہے میری درخواست ہے کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے چیف منسٹر انسپکشن کمیشن کے انچارج اعجاز خان جازی کو ہدایت کی وہ زاتی طور پر ہسپتال میں جا کر متاثرہ نوجوان سے ملیں ،انہوں نے اسکےبہترین علاج معالجہ کیلئے ہدایات بھی جاری کیں،انہوں نے زمہ داروں کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی،متاثرہ نوجوان کے والد نے نمائندے کو بتایا کہ انہوں نے انصاف کیلئے خوب بھاگ دوڑ کی لیکن جج کے با اثر ہونے کے باعث حکام نے ہماری ایک نہ سنی،اگر میرا بیٹا مجرم ہے تو اسکے خلاف مقدمہ درج کرکے عدالت میں پیش کیا جائے،جرم ثابت ہونے پر قانون کے مطابق سزا دی جائے،کسی جج کو یہ اجازت نہیں کہ وہ لوگوں کو اغوا کرکے اپنے گھر لے جا کر تشدد کر یں جیسا کہ میرے بیٹے کیساتھ کیا گیا،مجھے کوئی ایک بھی اس جج کیخلاف ایکشن لیتا نظر نہیں آتا،اب میری امیدوں مرکز چیف جسٹس آف پاکستان،وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں،نیوز سے بات کرتے ہوئے جج کے قریبی حلقوں نے الزامات پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں سختی سے مسترد کر دیاہے۔  
تازہ ترین