• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہریار شوکت

 دنیا بھرمیں عورت کے حوالے سے مختلف موضوعات ہمیشہ زیر بحث رہتے ہیں ۔حال ہی میں عورت مارچ کے چرچے عام تھے، کہیں اس کا دفاع تو کہیں شدید تنقید کی جارہی تھی ۔ابھی یہ طوفان تھمنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک خاتون اداکارہ کو ملنے والے اعزاز پر بحث چھڑ گئی ،پھر دو ہندو لڑکیوں کی کہانی کا شور ہوگیا ،کسی نے اس کہانی کو اغوا قرار دیا تو کسی نے لڑکیوں کی مرضی ثابت کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ ہمارے معاشرے ایسےموضوعات کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔ کاش ہم حقیقی مسائل کا جائزہ بھی اسی طرح سے لیں اور ان کی بھی سوشل میڈیا پرنشان دہی کریں ۔دین اسلام وہ مذہب ہے کہ جس کے آتے ہی بغیر کسی’ عورت مارچ کے‘ ،بغیر کسی احتجاج کہ عورتوں کو ان کے حقوق ملنے لگے لیکن آج معاشرے میں عورت کاحال دیکھ کر دل یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا آج ہم اسی دین پر گامزن ہیں ؟کیا اپنے نبی ؐ کا وہ فرمان یاد نہیں ہے کہ’’ اپنی عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘

گزشتہ دنوں ایک تعلیمی ادارے کی تقریب ِتقسیم انعامات میں جانے کا اتفاق ہوا ۔طالب علموں کے بڑی تعداد ہال میں اپنے والدین کے ہمراہ موجود تھی ۔اس تقریب کی ایک خاص بات تھی، جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ۔وہ یہ کہ تقریب میں ہر دوسرا انعام کسی نہ کسی طالبہ کو مل رہا تھا۔اگر ملک بھر کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح نظر آئے گی کہ اسکولوں سے لے کر جامعات تک ہمیشہ طالبات کی بڑی تعداد ہی نمایاں نمبر حاصل کررہی ہے ۔انٹر بورڈ کے سابقہ نتائج اٹھا کر دیکھیں تو اکثر پوزیشن طالبات کے حصے میں آئیں ۔میڈیکل اورانجینئیرنگ کالجوں، کی جامعات میں بھی طالبات کی تعداد زیادہ ہے ۔کسی میڈیکل کالج کے کنووکیشن میں جاکر دیکھ لیں طالبات کی ایک بڑی تعداد اپنی ْآنکھوں میں مستقبل کے خواب سجائے کامیابی کی سند حاصل کررہی ہوتی ہے ۔جامعہ کراچی شہر قائد کی سب سے بڑی جامعہ ہے،اس کے کئی شعبے ایسے ہیں، جہاں اکثریت طالبات کی نظر آتی ہےلیکن عملی زندگی میں ہمیں اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز کم ملتی ہیں۔جہاں تعمیراتی کام چل رہا ہو وہاں خواتین نظر ہی نہیں آتیں ۔میڈیا انڈسٹری میں بھی خواتین کی تعداد کم نظر آتی ہے ۔آئی ٹی کے اداروں میں کام کرنے والی خواتین کی تعدادبرائے نام ہے ۔آخر یہ کون سا جادو ہے، جس کی چھڑی کے گھومتے ہی ایک دم سے زندگی کے شعبوں سے یہ کامیاب خواتین غائب ہوجاتی ہیں ۔

کسی دور میں خواتین کو تعلیم دلوانے کا رواج نہ تھا ،اکثر لوگ بچیوں کو تعلیم سےبہرہ مند کرنا یا مخلوط تعلیمی ادارے میں بھیجنا براسمجھتےتھے،یہی وجہ تھی کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد طالبات کی نسبت زیادہ ہوتی تھی ،پھر آہستہ آہستہ معاشرے میں شعوربیدارہونے لگا ۔ بچیوں کی تعلیم کی اہمیت سمجھ میں آنے لگی کہ اگر ایک عورت کو تعلیم دلائی جائے تو وہ اس کی آنے والی نسلوں کےلئے بھی کار آمدہوگی ،کیوں کہ ماں ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے ، لیکن یہ شعور اب بھی نامکمل ہے ۔لوگ بیٹیوں کو تعلیم تو دلوا دیتے ہیںلیکن ملازمت کی اجازت نہیں دیتے ، انہیںملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ نہیں ملتا ۔والدین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو بچیوں کو ملازمت کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن شادی کےبعد سسرال والے راضی نہیں ہوتے، گویا تعلیم یافتہ خواتین کو اسپتالوں،دفاتر اورعملی زندگی سے غائب کر کے باورچی خانے تک محدود کر دیا جاتاہے ۔

شعور کی اس کمی کو کچھ لوگ دین داری کا نام دیتے ہیں تو کچھ روایات کی پاسداری کا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے نہ تو دین عورت کو معاشرے کی بہتری اور آنے والی نسلوں کی کامیابی کے لیے جدوجہد سے روکتا ہے اور نہ ہی پاکستانی روایات ۔یہ تو بس کم علمی ہے، جسے لوگوں نے مختلف نام دیے ہوئے ہیں ۔ عورتوں کی کامیابی بلکہ اپنے آنے والی نسلوں کی کامیابی میں رکاوٹ بننے والے افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورت اگر بغور دینی و قومی تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو ان کے خیالات یکسر بدل جائیں ۔

تحریک پاکستان میں بھی خواتین کا کردار کلیدی رہا ۔محترمہ فاطمہ جناح نے تحریک آزادی کی جدوجہد میں قائداعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور خواتین کو متحد رکھا ۔قیام پاکستان کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح کا کردار مثالی رہا ۔برطانوی تسلط میں رہتے ہوئے سیکریٹریٹ پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کا اعزاز بھی ایک خاتون فاطمہ صغرا کو حاصل ہوا۔بیگم نصرت ہارون نے بھی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سندھ بھر کا دورہ کیا اور خواتین میں شعور بیدار کیا ۔ان جیسی سیکڑوں خواتین کا ذکر تاریخ پاکستان میں موجود ہے، جن کی انتھک محنت سے آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

سات براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز بھی پاکستانی بیٹی ثمینہ نے اپنے نام کیا ۔شارمین عبید نے آسکر ایوارڈ حاصل کرکے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ۔منیبہ مزاری خود معذور ہونے کے باوجود دنیا بھر میں معذور افراد کی فلاح کے لئے کوششیں کررہی ہیں ۔ارفع کریم خود تو نہ رہیں لیکن پاکستان کے نام کئی اعزازات کر کے چلی گئیں ۔آج بھی ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین موجود ہیں جو اپنے والدین کی مدد سے دنیا بھر میں وطن عزیز کا نام روشن کررہی ہیں۔

یقینی طور پر گھر داری خواتین کا اہم فریضہ ہے لیکن اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ گھر اور ملازمت ساتھ ساتھ چلائے جاسکتے ہیں۔جو خواتین دنیا بھر میں ملک کا نام بلند ہونے کا باعث بنی ہیں یا بن رہی ہیں کیا وہ اچھی بیٹی ،اچھی بیوی اور بہن نہیں ہیں؟اگر خواتین کا معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرنابرا ہوتا تو اسلام کی سربلندی کے لئے لڑی جانے والی جنگوں میںخواتین اپنا کردار کیوں اور کیسے ادا کرتیں ؟ پڑھی لکھی خواتین کوعملی زندگی سے دور رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے تعلیمی سال اور ان کی محنت سب بے کار گئی ،ساتھ ہی ان افراد کے ساتھ بھی ظلم ہوا ،جنہیں شکست دے کر یہ آگے بڑھی تھیں ۔ہمیں اس بات کو سمجھنے ہوگا کہ معاشرے کی ترقی میں ہمیشہ سے خواتین کا اہم کردار رہا ہے ۔خدارا بچیوں کو ضرور پڑھائیں لیکن ان کی ڈگریوں کو گھروں کے چولہےمیں نہ جھونکیں ۔انہیں بھی معاشرے کی بہتری اور ترقی میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیں ۔

تازہ ترین