• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے سرو سامانی کے عالم میں قافلہ مصطفوی بدر کی وادی کی طرف رواں دواں تھا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قیادت فرما رہے تھے۔ نہ ہر کسی کو اسلحہ میسر تھا اور نہ خوراک لیکن وہ پورے عزم و یقین کے ساتھ معرکہٴ حق و باطل کے لئے بڑھے چلے جارہے تھے۔ سواریاں بہت کم تھیں۔ سپہ سالار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو حکم دیا کہ ایک ایک اونٹ پر باری باری تین افراد بیٹھیں۔ دن کے سفر کو تین حصوں میں تقسیم کرلیں اور اس طرح باری باری ہر کوئی کچھ دیر کے لئے سواری پر بیٹھ سکے گا اور دوسرے پیدل چلتے رہا کریں۔ وجہٴ تخلیق کائنات اور مرشد اعظم رہبر اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک اونٹ پر جلوہ فرما ہوئے اور پھر اپنے دو ہمراہیوں سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت مرثد بن ابی المرثد سے فرمایا اب آپ باری باری اس پر بیٹھیں اور خود سرکار عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے۔ سیدنا علی اور حضرت مرثد نے عرض کی یا رسول اللہ آپ کے ہوتے ہوئے ہم کیسے اونٹ پر بیٹھیں؟ ہم یہ کیسے گوارا کرلیں کہ ہم اوپر بیٹھے ہوں اور ہمارا آقا پیدل چل رہا ہو۔ محبت اور ادب سے لبریز ان احساسات کے جواب میں رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں جو ارشاد فرمایا اور جو جواب مرحمت فرمایا وہ رہتی دنیا تک تمام مذہبی، روحانی، سیاسی، سماجی رہنماؤں اور خود ساختہ مفکرین، قائدین کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ میرے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ”نہ تم مجھ سے زیادہ طاقتور ہو کہ تمہیں تھکاوٹ نہ ہو اور نہ ہی میں اللہ رب العالمین کی بارگاہ سے ثواب حاصل کرنے سے بے نیاز ہونا چاہتا ہوں“
یعنی اس ارشاد گرامی کا مفہوم یہ تھا کہ مجھے احساس ہے کہ بشری تقاضوں کے تحت تمہیں تھکاوٹ ہو سکتی ہے تمہارے پاؤں میں تکلیف ہو سکتی ہے جس طرح تم پیدل چل کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کررہے ہو میں بھی اسی طرح اپنے رب کریم اپنے رفیق اعلیٰ کی عنایات رحمتوں اور برکتوں کا طلب گار ہوں۔ اس واقعہ سیرت طیبہ کا واضح دو ٹوک اور اٹل نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب باعث تخلیق کائنات رحمة اللعالمین سید الاولین و الآخرین شفیع المذنبین امام الانبیاء و المرسلین سیدنا و مولانا حبیبینا و نبینا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحی فداہ اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ پیدل سفر فرماسکتے ہیں اور آپ کے جاں نثار اور شمع نبوت کے پروانے آقائے دوجہاں کے پیدل چلنے کے وقت سواریوں پر بیٹھ سکتے ہیں اور اس سے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے ادبی نہیں ہوتی تو پھر روز قیامت تک آقا علیہ السلام کی پیروی اور اتباع کا دعویٰ کرنے والا کوئی مفکر، کوئی مصلح، کوئی مبلغ اسلام، مفسر قرآن، کوئی محدث العصر کوئی علامہ فہامہ، قائد، حضرت، قبلہ، سیرت طیبہ کے اس روشن پہلو سے بے نیاز اور بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ سراج منیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک ایک لمحہ ایک ایک گوشہ ایک ایک پہلو پوری انسانیت کے لئے پیغام اور برہان ہے۔ کاش اس دور میں ہمارے مشائخ طریقت اور رہبران شریعت اس پیغام کو عملی طور پر عام کریں کہ وہ خود تو پیدل چلیں اور ان کے معتقدین متولین مریدین رفقاء اور کارکن سواریوں پر بیٹھے ہوں۔ جس طرح سیدنا عمر فاروق نے آمدِ فلسطین کے وقت آقا کے اس فرمان کی عملی اتباع کرکے بغیر جنگ کے فتح حاصل کی تھی۔ لمبے چوڑے خطابات اور پر جوش تقاریر سے زیادہ سیرت طیبہ کی پیروی میں ایک عمل زیادہ موثر زیادہ نتیجہ خیز زیادہ بابرکت ہوتا ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ جب کسی معرکہ حق و باطل پر تشریف لے جاتے تو اہل مدینہ اور اپنے اہل بیت کی حفاظت کے لئے کسی کو مامور فرماتے۔ آقا علیہ السلام کے لئے ایک مخصوص خیمہ تھا۔ سرخ رنگ کے چمڑے کا یہ قبہ آپ کے ہمراہ ہوتا سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اسے سنبھالے رکھتے۔ میرے آقا علیہ السلام کا ذاتی سامان آپ کا تکیہ مبارک، آپ کے نعلین مقدس آپ کا وضو کا لوٹا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنبھالے رہتے۔ اسی لئے ان کا قابل فخر لقب ”صاحب الوسادة والنعلین و المطہرہ“ تھا جسے وہ اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ حضرت بلال کھجوروں کا کچھ ذخیرہ ساتھ رکھتے تھے اور سادگی سے سفر شروع ہوجاتا۔ صحابیات یعنی عورتیں بھی جہاد کے لئے ساتھ چلنے پر اصرار کرتیں لیکن آپ فرماتے تمہارے لئے یہی جہاد ہے کہ تم اپنے گھر رہ کر بچوں کی پرورش کرو اور اپنے روز و شب گھریلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ عبادت میں بسر کرو۔ عورتوں نے عملی طور پر صرف غزوہٴ احد میں حصہ لیا اور وہ بھی اس وقت جب مدینہ منورہ میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی افواہ یہودیوں اور منافقین نے پھیلادی۔ سرکار کی شہادت کا سن کر عورتیں گھروں سے نکل آئیں اور احد جو کہ مدینہ منورہ سے قریب ہی ہے وہاں کی طرف چل پڑیں آقا کی خیریت کی خبر پا کر انہیں اطمینان ہوا۔ ورنہ حضور علیہ السلام خواتین کو مشکل میں نہ ڈالتے اور نہ ہی انہیں اپنے ہمراہ غزوات میں حصہ لینے کے لئے ساتھ لے جاتے۔ ”غزوہ تبوک“ میں سیدنا علی المرتضیٰ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب اس لئے بنایا کہ وہ مدینہ میں رہ کر اہل بیت نبوی اور مدینہ منورہ کی تمام آبادی کے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا خیال رکھیں جنہیں مدینہ منورہ میں چھوڑ کر آقائے دوجہاں نے تبوک کا لمبا سفر اختیار فرمایا تھا۔
بلاشبہ قیامت تک میرے آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور آپ کا اسوہ حسنہ مشعل راہ ہے اب جو بھی تحریک احیائے اسلام کے لئے کسی بھی عنوان سے کوئی جدوجہد کرے گا کوئی طویل سفر اختیار کرے گا کوئی پیش قدمی کرے گا اسے سیرت طیبہ کے ان روشن اور واضح پہلوؤں اور گوشوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہمارا ماضی قریب اور حالیہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں وہ تمام مذہبی اسلامی تحریکیں مطلوبہ اہداف و مقاصد حاصل نہ کرسکیں جس کے لئے وہ شروع کی گئی تھیں کیونکہ اس میں پیرویٴ سنت کی بجائے جذباتیت اور شورائیت کی بجائے ایک لیڈر کی کامل اطاعت کو پیش نظر رکھا گیا۔ ہندوستان چھوڑ کر افغانستان ہجرت کرنے کی تحریک ہو یا بالاکوٹ کے مقام پر پٹھانوں کو بدعتوں سے دور رکھنے کی مسلح جدوجہد ہو اور پھر دوسری مذہبی سیاسی تحریکیں۔ یہ جذباتیت سے شروع تو کردی جاتی ہیں لیکن کارکنوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ لیڈر کے ذہن میں کیا ہے وہ اندھا اعتماد اور اعتبار کرتے ہیں اور اس وقت ان کے اعتماد اور اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ منزل مراد تک نہیں پہنچے بلکہ کسی نتیجے کی بغیر انہیں واپس لوٹنا پڑتا ہے۔ پروفیسر علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بظاہر اخلاص نیک نیتی اور عزم و یقین کے ساتھ ”نظام بدلو“ تحریک شروع کی لیکن اس میں سے جو نتیجہ برآمد ہوا وہ الیکشن کی اصلاحات تھا، جس طرح سیاسی حکومتوں کے وعدے ہوتے ہیں اسی طرح کاغذ کے ایک ٹکڑے پر چند وعدے کئے گئے ہیں اور کوئی پتہ نہیں کہ کل کو کہا جائے کہ یہ کوئی (معاذ اللہ) قرآن و حدیث ہے کہ وعدے کو پورا کیا جائے۔ پانچ دن کے طویل دھرنے اور ماؤں بہنوں بیٹیوں کے قابل قدر جذبے اور عزم و ہمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی گزارش کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اگر محترم قادری صاحب خواتین کو ساتھ لے جانے کی بجائے نوجوانوں کے ہمراہ ہی نکلتے اور خود بھی کبھی کبھی ہی سہی ان کے درمیان سردی میں آکر بیٹھتے تو نتیجہ مختلف بھی ہوسکتا تھا۔ اعتبار کا رشتہ کچے دھاگے کی طرح ہوتا ہے ایک دفعہ ٹوٹ جائے تو جڑ تو جاتا ہے لیکن اس میں گرہ آجاتی ہے۔
تازہ ترین