• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابتدائی تین ورلڈ کپ انگلستان میں منعقد ہونے کے بعد پاکستان اور بھارت کرکٹ بورڈ کی مشترکہ کاوششوں سے چوتھے عالمی کپ کی میزبانی دونوں ممالک کے حصے میں آئی۔

اپنے اسپانسر کے نام سے منسوب ریلائنس ورلڈ کپ پاکستان کےلیے دوہری اہمیت کا حامل تھا اول یہ کہ ملک میں پہلی مرتبہ وسیع پیمانے پر عالمی سطح کا کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا، دوم یہ کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ مل کےکر آئی سی سی کو مجبور کیا کہ وہ برصغیر پاک وہند میں اس ٹورنامنٹ کے انعقاد کی منظور دے۔

چوتھے ورلڈ کپ میں بھی دو پول میں تقسیم آٹھ ٹیمیں شریک تھیں۔ پول اے میں دفاعی چیمپئن بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، زمبابوے اور پول بی میں پاکستان، ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور انگلینڈ شامل تھی۔

اس بار میچ میں اوورز کی تعداد 60 سے کم کرکے 50 کردی گئی تھی۔ تمام ٹیموں نے اپنے پول میں موجود ساری ٹیموں سے دو، دو میچ کھیلے۔ رولز کے مطابق ہرمیچ کےلیے دو دن رکھے گئے۔ میچ کےلیےغیرجابندار امپائرتھے۔

ہرٹیم کے لئے زرضمانت دگنی کرتے ہوئے دو لاکھ پاؤنڈ کردی گئی تھی۔ سیمی فائنل جیتنے والی ٹیم کےلیے 12ہزار اور ہارنے والی کےلیے چھ ہزار پاؤنڈ انعام تھا۔ ورلڈکپ ونر کے لئے 30ہزار پاؤنڈ انعام تھا۔

ریلائنس انڈسٹریز آف انڈیا نے چار کروڑ اسی لاکھ روپے کی رقم میں ورلڈ کپ اسپانسر شپ حاصل کی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت نے اس ٹورنامنٹ پر 15کروڑ روپے خرچ کئے، جس میں سے دو تہائی رقم بھارت اور ایک تہائی پاکستان کی ذمہ داری تھی۔ ورلڈکپ کا ڈیزائن انگلستان کے مسٹر جیرارڈ نے کیا، جو فٹبال کے عالمی کپ کا بھی ڈیزائن تیارکرچکے تھے۔

ٹورنامنٹ کا آغاز 8 اکتوبر سے ہوا اور فائنل 8 نومبر کو کھیلا گیا۔ پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ کی سب سے مضبوط ٹیم تصور کی جارہی تھی۔

پاکستانی ٹیم

پاکستانی ٹیم کپتان عمران خان، نائب کپتان جاوید میاں داد، رمیز راجہ، منصور اختر، اعجاز احمد، وسیم اکرم، سلیم یوسف، سلیم جعفر، توصیف احمد، عبدالقادر، سلیم ملک، شعیب محمد اور منظور الہی پر مشتمل تھی۔

پہلا مرحلہ

آٹھ اکتوبر کو حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم سے اس ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا۔ پول بی کے پہلے میچ میں میزبان پاکستان نے سری لنکا کو پندرہ رنز سے شکست دے کر ٹورنامنٹ کا فاتحانہ آغاز کیا۔ کپتان عمران خان ٹاس جیت کربیٹنگ کا فیصلہ کیا اور جاوید میاں داد کی سنچری اور رمیز راجہ کی نصف سنچری کی مدد سے چھ وکٹوں کے نقصان پر حریف ٹیم کو 267رنز کا ہدف دیا۔

جواب میں دلیپ مینڈس کی قیادت میں سری لنکا کی پوری ٹیم 252رنز پر آوٹ ہوگئی۔ جاوید میاں داد مین آف دی میچ قرار پائے۔

9 اکتوبرکو دو میچ تھے، پول اے میں مدراس میں کپتان کپیل دیو کی زیرقیادت میزبان اور دفاعی چیمپئن بھارت آسٹریلیا سے ایک رن سے ہار گیا تھا۔

پول بی کے دوسرے میچ میں گوجرانوالہ میں ویوین رچرڈ کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کا مائیک گیٹنگ کی زیرکپتانی انگلینڈ سے مقابلہ ہوا جس میں انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو دو وکٹوں سے شکست دی۔

10اکتوبر کوبھارتی ریاست حیدرآباد میں جیف کرو کی قیادت میں نیوزی لینڈ نےکپتان ٹرائیکاس کے کی کپتانی میں زمبابوے کو تین رنز سے شکست دی تھی۔

13اکتوبر کو تین میچ ہوئے پول اے کے مدراس میں آسٹریلیا نے زمبابوے کو 96 رنز سے شکست دی جبکہ پول بی کے دو میچ میں سے ایک میچ میں راولپنڈی میں پاکستان نے انگلینڈ کو 18رنز سے شکست دی۔

انگلینڈنے ٹاس جیت کر پہلے پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی تو پاکستان نے 239 رنز بنائے، جوابی طور پر انگلینڈ کی پوری ٹیم221 رنز پر آوٹ ہوگئی تھی۔

ایک اور میچ میں کراچی میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا 191 رنز سے شکست دی۔

14 اکتوبر کو بنگلور میں بھارت نے نیوزی لینڈ کو 16رنز سے شکست دی۔ 16اکتوبرلاہور کے قذافی اسٹیڈیم پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو ڈرامائی طور پر ایک وکٹ سے شکست دی۔

17اکتوبر کو پشاور میں انگلینڈ نے سری لنکا کو108رنز سے اور پول بی میں ممبئی میں بھارت نے زمبابوے کو آٹھ وکٹ سے شکست دی۔

19اکتوبر کواندور میں آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو تین رنز سے شکست دی۔

20اکتوبر کو کراچی میں پاکستان اور ا نگلینڈ کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں انگلینڈ کو سات وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرلی۔

عمران خان ٹاس جیت کر پہلے انگلینڈ کو بیٹنگ کا موقع دیا تو 244رنز کا ٹارگٹ ملا، جسے تین وکٹ کے نقصان پر پاکستان حاصل کرلیا ۔ عمران خان اچھی بالنگ کےسبب مین آف دی میچ قرار پائے۔

21اکتوبر کو کانپور میں پول بی کے ایک میچ میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو دلچسپ مقابلے کے بعد شکست دی۔

22اکتوبرکو فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں بھارت نے آسٹریلیا کو 56رنز سے شکست دی اور پول اے میں سرفہرست ہوگئی۔ 23اکتوبر کوکلکتہ میں نیوزی لینڈ نے زمبابوے کو چار وکٹوں سے ہرایا۔

25اکتوبر کو فیصل آباد میں پاکستا ن اور سری لنکا کے درمیان مقابلہ ہوا۔ جو پاکستان آسانی سے 113 رنز سے جیت گیا۔

پاکستان نےٹاس جیت پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے7وکٹوں کے نقصان پر سلیم ملک کی سنچری کی مدد سے 297رنز بنائے۔ جواب میں سری لنکا 184رنز بناسکا۔

26 اکتوبر کو دو میچ ہوئے، جے پور میں گروپ بی کے میچ میں انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو 34رنز سے شکست دی۔

احمد آباد میں بھارت نے زمبابوے کو باآسانی سات وکٹوں سے شکست دی۔ 27 اکتوبر کو چندی گڑھ میں آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو 17رنز سے شکست دی۔

30 اکتوبرکو آخری تین میچ ہوئے۔ کراچی میں پاکستان اپنے راؤنڈ کا آخری میچ 28رنز سے ویسٹ انڈیز سے ہارگیا۔

ویسٹ انڈیزنے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے258رنز بنائے جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم 230رنز پر آوٹ ہوگئی تھی۔

اس شکست کے باوجود پاکستان گروپ بی میں پہلی پوزیشن پر موجود تھا۔

بھارت میں کھیلے جانے پول اے کے میچ میں آسٹریلیا نےزمبابوے کو 70رنز سے اور پول بی کے ایک اور میچ میں انگلستان نے سری لنکا کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی۔

31اکتوبر کو ناگپور میں اپنے راؤنڈ کے آخری میچ میں بھارت نے نیوزی لینڈ کو 9وکٹوں سے شکست دے کر گروپ اے میں پہلی حاصل کرلی تھی۔

گروپ میچوں میں گروپ اے سے بھارت اور آسٹریلیا نے اچھی کارکردگی مظاہرہ کیا اور پانچ، پانچ میچوں میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم بہتر رن ریٹ کی بنا پر بھارت کی ٹیم سرفہرست قرار پائی جبکہ پول بی میں پاکستان اور انگلینڈ کی کارکردگی اچھی رہی۔ پاکستان نے پانچ اور انگلینڈ نے چار میچوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ابتدائی راؤنڈ کے مکمل ہونے کے بعد ٹیموں کی فائنل پوزیشن کچھ یوں رہی۔

گروپ اے میں سب سے پہلے بھارت پھر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور آخر میں زمبابوے تھی، پول بی میں سب سے پہلے پاکستان، پھر انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور آخر میں سری لنکا تھی۔

پہلا سیمی فائنل، پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا

4نومبر کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پہلا سیمی فائنل ہوا۔ پاکستان کی ٹیم فیوریٹ سمجھی جارہی تھی لیکن ایلن بارڈرکی زیرقیادت آسٹریلیا کی نسبتاً ناتجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے سرپرائز نتیجہ دیا، پاکستان کو اس کے ہاتھوں18 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی تو مقرررہ اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 267 رنز کا ٹارگٹ دیا۔ 

میچ کا آخری اوور جو سلیم جعفر نے کرایا پاکستان کےلیے بدقسمت ثابت ہوا، مجموعی طور پر بالنگ کا آخری اور بیٹنگ کا پہلا اوور دونوں پاکستان کےلیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ میچ کی آخری چھ گیندوں پر آسٹریلیا نے 18رنز حاصل کیے یہ وہ ہی 18رنز تھے جس سے پاکستان کو شکست ہوئی اور پہلے اوور میں بدقسمتی سے ان فارم بیٹسمین رمیز راجہ کےرن آوٹ ہونےسے بیٹنگ لائن ابتدا سے ہی دباؤ میں آگئی پھر پاکستان سلیم ملک کے 25 جاوید میاں داد کے 70 اور کپتان عمران خان کے 58رنز کے باوجود پوری ٹیم 249 رنز پر آوٹ ہوگئی تھی۔ آسٹریلیا فائنل میں پہنچنے والی پہلی ٹیم تھی۔

دوسرا سیمی فائنل، بھارت بمقابلہ انگلینڈ

5نومبر کو ممبئی میں دوسرا سیمی فائنل بھارت اور انگلینڈ کے درمیان تھا۔ جس میں انگلینڈ نے بھارت کو 35رنز سے ہرا کر فائنل میں جگہ بنالی، انگلینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے 254رنز بنائےجواب میں بھارت کی پوری ٹیم 219 رنز پر آوٹ ہوگئی، جس کے ساتھ ہی ٹورنامنٹ کی دونوں میزبان ٹیمیں اپنے ہوم کراؤڈ کے سامنے فائنل سے باہر ہوگئیں، یہ دلچسپ صورتحال تھی۔

فائنل،آسٹریلیا بمقابلہ انگلینڈ

8نومبر کو کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آسٹریلیا اور انگلینڈ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ٹاس جیت کر آسٹریلیا کے کپتان ایلن بارڈر نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ اوور میں 5وکٹوں کے نقصان پر253 رنز بنائے۔ ان کی ٹیم کے نمایاں بیٹسمین ڈیوڈ بون رہے، انہوں نے 75رنز بنائے۔

فائنل دلچسپ تھا لیکن انگلینڈ مقررہ اوور میں مطلوبہ اسکور کرنے میں ناکام رہا، اسے آخری دو اوور میں 19رنز کی ضروررت تھی، لیکن وہ مقرررہ اوور میں 8 وکٹوں کےنقصان پر246رنز بناسکی۔

اس طرح آسٹریلیا پہلی مرتبہ عالمی کپ جیتنے میں کامیا ب ہوگئی۔ آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ بون مین آف دی میچ قرار پائے۔

تازہ ترین