• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ سیاسی لوگ چاہتے ہیں کہ میں ان کے متعلق اپنی رائے تبدیل کرلوں مگر کالج کے دنوں کی ایک پھٹی پرانی یادنے ان کی اس چمکی دمکتی کوشش پر پانی پھیر دیا۔مجھے اپنا ایک کلاس فیلو یادآگیاجس نے مجھ سے بیس روپے فسٹ ایئر میں ادھار لئے تھے اور فورتھ ایئر میں ایک دن کہنے لگاکہ یہ اپنے بیس روپے واپس لے لو۔جس پر ایک فوری ردعمل کے تحت میں نے روپے واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ”سوری تمہارے بارے میں اِس عرصہ میں جو رائے میں قائم کر چکا ہوں وہ بیس روپے واپس لے کر تبدیل نہیں کر سکتا“۔سو میں نے ان دوستوں سے معذرت کر لی جن کی حکومت میں وفاق اور پنجاب میں پچھلے پانچ سال سے دیکھتا چلا آرہا ہوں۔میں نے انہیں کہا کہ میں ان میں سے نہیں ہوں جو صرف اپنے مفادات کی خاطر ڈاکٹر طاہر القادری کے ماضی سے وہ بری باتیں بھی نکال لائیں جو کہیں موجود ہی نہیں مگر ایک دیدہ ور دوست زعمِ دانش وری میں بضد ہو گئے اوراس عمل ِ نیک کے باب میں میلوں لمبا خطبہ ء مسنون ارشاد فرمایا۔ ہائے کیا اندازِ گل افشانی ء گفتار تھا۔انہوں نے پاکستان کی بہتری کے ایسے ایسے فوائد گنوا دئیے کہ حکیم لقمان کے منہ میں بھی پانی بھر آتا۔ میرا بہک جاناتوضروری ہو گیا تھامگر چوہوں کے ایک اجلاس کی رپورٹ میرے پاؤں پڑ گئی ۔ جس میں ایک چوہا اپنا ہاتھ لہرا لہرا کر کہہ رہا تھا ۔دوستو!میرے قبیلے کے جوانو!بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والی ترکیب پرانی ہو گئی ہے۔میں بتاتا ہوں آپ کو بلی سے نجات کا راستہ۔۔ ہمیشہ کیلئے نجات کا راستہ۔۔آپ سب جانتے ہیں مالک ِ مکان نے ہمارے لئے تمام مکان میں زہریلی گولیاں بکھیر رکھی ہیں ۔ایک فدائے ملت چوہا وہ ساری گولیاں کھالے اور بلی کے سامنے سے گزرے ۔۔۔بلی اُسے ہڑپ کرلے گی۔۔۔ یوں زہر اُس کے اندر پہنچ جائے گا اور اس سے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے گی ۔ تجویز سن کر تمام چوہے عش عش کر اٹھے ۔گھنٹی کی ترکیب بتانے والے بوڑھے چوہے نے اُٹھ کر کہا ”بسم اللہ یہ عظیم کارنامہ آپ ہی سر انجام دیجئے “جس پرتقریر کرنے والے چوہے نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگا اگر میرے جیسے دیدہ ور دانشوربھی مرنے لگ جائیں تو پھر آپ کو ایسے عظیم مشورے کون دے گا۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں نے کسی دیدہ ور دانشور کے مشورے پر کان نہیں دھرا بلکہ کان کو جاکر بنک کے لاکرمیں رکھ دیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی با توں کا میں ”دل دادا ہوں مگر بری صحبت ء سخن نے مجھے کبھی ثواب کمانے ہی نہیں دیایاشاید ابھی ثواب کمانے کی عمر نہیں آئی ۔مجھے پچھلے دنوں ”ایک دیدہ وردانشورسیاست دان‘ کے متعلق خبر ملی تھی کہ اِن دنوں موصوف طواف کوچہ ء جاناں کو چھوڑ کرپھرطواف حرم کی سعاد ت حاصل کرنے جارہے ہیں یعنی امریکہ جانے کی بجائے مکہ معظمہ سدھارنے کا ارادہ ہے ۔تو مجھے ایک قطعہ یاد آگیا جو کسی شوخ نے یہاں برطانیہ میں بریڈفورڈ کی کسی مسجد کے دروازے پر لٹکادیا تھا:
حضرت الحاج صوفی موج دیں کی خیر ہو
سب جوانی میں نکالے اپنے ارمانِ بہشت
عمر کے اک ایک لمحے سے نچوڑا مال و زر
جمع کرتے آئے ہیں دنیا میں سامانِ بہشت
مانگتے ہیں بیٹھ کر اب مسجدوں میں رات دن
چند حوریں ، ایک بنگلہ ، اور غلمانِ بہشت
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اپنے ان احباب کیلئے ”دیدہ ور “ اور دانشور “ کی اصطلاحیں کیوں استعمال کی ہیں۔ دراصل یہ وہ دیدہ ور ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ یہ چمن میں بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں اور بیچاری ”نرگس“ہزاروں سال اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں بھی جب نرگس نے رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کرلی تھیں توان کالے نیلے دیدوں سے اس کی ملاقات ہوئی۔ ان دیدوں کی دیدہ وری کا یہ عالم ہے کہ:
”لوں لوں دے منڈ سو سو چشماں
اک کھولاں اک کجاں ہو“
یہ دیدہ ور کہاں کہاں نہیں دیکھ لیتے۔سرائیکی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ کسی ”مہاجن “ کی ماں کہیں سڑک پر گری پڑی تھی کسی نے جا کر مہاجن کو بتایا تو وہ کہنے لگا فکر کی کوئی بات نہیں کچھ دیکھ کر ہی گری ہوگی۔سو میں اپنے دیدہ ور دوستوں کی ژوف نگاہی کا قائل ہوں ۔کچھ دیکھ کرہی انہوں نے میری طرف قدم رنجا فرمایا ہوگااور جہاں تک دانشورسیاست دانوں کی بات ہے تو سیاست دانوں کی بے شمار اقسام ہوتی ہیں۔کچھ گاؤ زبانی سیاست دان ہوتے ہیں ان کاتعلق خمیرہ گاؤزبان سے کم اورزبان دانی سے زیادہ ہوتا ہے یعنی گفتگو کے بہت ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔کچھ زعفرانی سیاست دان ہوتے ہیں۔ان کاتعلق بھی عرقِ زعفران سے زیادہ کشتِ زعفران سے ہوتا ہے یعنی یہ ہنسنے اور ہنسانے کے ماہرہوتے ہیں۔کچھ دور کی کوڑی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔کچھ فلاسفرسیاست دان بھی ہوتے ہیں مگر اس قسم کا تعلق فلسفے سے زیادہ ”معجون ِفلاسفہ“ سے ہوتاہے۔اور کچھ مرواریدی سیاست دان ہوتے ہیں موتیوں سے بھرے ہوئے مروارید کے خمیرے کے طرح۔سیاست دانوں کی اتنی قسمیں ہیں جتنا کوئی بھی شخص جھوٹ بول سکے آج کل توہر پاکستانی بزعم خویش سیاست دان ہے کیونکہ انہیں علم ہوگیا ہے کہ سیاست دان ہونے کیلئے سیاست کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس میدان میں نام کمانے کیلئے چند ایک موٹے موٹے الزامات ، دوچار صحافیوں اوت ٹی وی اینکروں سے دوستی ،چوری شدہ مال کی بہتات اور اسی طرح کی ایک دو چیزیں اور کافی ہوتی ہیں۔ ان میں سے وہ سیاست دان جنہیں کچھ جملے اوردوچار بڑے فلاسفر کی کو ٹیشنز یاد ہیں۔ ان سیاست دان دانش وروں بھی بن جاتے ہیں ان کی اکثریت آج کل میری طرح کالم نگار بن چکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ غلامی کی آزاد صحافت پر رحم فرمائے ۔دانشوروں سیاست دانوں کے متعلق ایک کہاوت بھی مجھے یاد رہی ہے ڈاکٹر طاہر تونسوی اکثر سنایا کرتے تھے کہ ”ناں میں آکھاے ناں تیں آکھاے تینوں دانشور وت کیں آکھاے ۔اُس نک کٹائی ہے جیں آکھاے“دانشور سیاست دانوں کے متعلق کسی کی ایک آزاد نظم پر کالم کا اختتام کرتا ہوں۔
پچھلے بیس برس کے سارے سیاست دان
اپنی اپنی سوچ کے نقطے پر
پوچھ رہے ہیں رک رک کر
ناخن پہ کیسے ہاتھی اور مہاوت چلتے ہوں گے
کیسے سرکنڈوں کی کچی چھت پر
اونٹوں کا رقص ابھی تک جاری ہے
تازہ ترین