• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ جنوری کو افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر اوباما نے اعلان کیا کہ افغانستان سے انخلاء سے قبل سیکورٹی معاملات اور تمام قسم کے آپریشنوں کو افغان فورسز کو سپرد کرنے کے عمل کی رفتار تیز کی جائے گی۔ افغان صدر کے دورہ واشنگٹن کے دوران اس اعلان سمیت امریکی انخلاء سے وابستہ غیر حل شدہ مسائل،2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی دستوں کی موجودگی کے پہلو اور بقیہ فورسز کے لئے قانونی استثنیٰ کے ایشوز نے میڈیا کو اپنی جانب بہت زیادہ متوجہ کیا۔ ان فوجی ایشوز سے زیادہ افغانستان کے مستقبل کے لئے زیادہ فیصلہ کن سوالات سیاسی حکمت عملی کی بابت ہیں۔ فوجی انخلاء کی رفتار کو تیز کرنے کی نسبت سفارتی کاوشوں کو سیاسی حل کے حصول پر مرتکز کرنا زیادہ اور طویل مدتی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ فوجی انخلاء کے دوران سیاسی راستے پر پیشرفت زیادہ موثر طریقے سے تذویراتی ماحول کے خدوخال مرتب کرے گی۔
اس تناظر میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سپورٹ کا اعادہ کیا اور پہلی مرتبہ صدر اوباما نے ان مذاکرات کے لئے طالبان کے دفتر کے قیام کی عوام کے سامنے تصدیق کی۔ یہ دفتر پہلے سے موجود ہے مگر اسے رسمی طور پر تسلیم کیا جانا ہے۔ طالبان کے دفتر کے بارے میں بیان سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ اس سلسلے میں صدر کرزئی کو راضی کر لیا گیا ہے اور دوم زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ اس اعلان سے اشارہ ملا کہ امریکی حکومت طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے احیاء کی خواہاں ہے جو ایک سال قبل ’قطر پروسیس‘ کے نام سے شروع ہونے کے بعد کچھ عرصے جاری رہے تھے جس کا مقصد رسمی مذاکرات کی ابتدا کرنا تھا۔ مگر مارچ2012ء میں یہ بات چیت اس وقت معطل ہو گئی تھی جب طالبان نے امریکی مذاکرات کاروں پر اپنی باتوں سے پھرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
صدر کرزئی کے دورہ امریکہ کے اختتام کے وقت امریکی حکام نے بیان دیا کہ وہ ’امن عمل کی رفتار کو تیز کرنا‘ چاہتے ہیں اور اس تناظر میں پاکستان کا ’کردار نہایت اہم‘ ہے نیز ’جنگ کو ذمہ داری سے ختم کرنے کے لئے سیاسی حل نا گزیر ہے‘۔ یہ بیانات پاکستان اور افغانستان کے مابین سفارتی کھلبلی کے بعد دیئے گئے ہیں۔ افغانستان نے ’2015ء کے لئے پیس پروسیس روڈ میپ‘ تجویز کیا جب کہ پاکستان نے درمیانے درجے کے متعدد طالبان رہنماؤں کو آزاد کر دیا۔
اس روڈ میپ میں صرف یہ درج ہے کہ پانچ ادواری پروسیس میں کیا حاصل کیا جانا ہے مگر یہ وضاحت نہیں ہے کہ ایسا کس طرح کیا جائے گا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کیا پیشکش کی جائے گی۔ اس میں یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ طالبان قیدیوں کی رہائی سے مصالحت میں کیا مدد ملے گی۔ مذکورہ طالبان رہنماؤں کی رہائی پر امریکہ نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد مزید طالبان کی رہائی سے قبل امریکہ سے مشاورت کرے جب کہ پاکستانی حکومت سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ رہا شدہ قیدیوں کو ’مانیٹر‘ بھی کرے جسے پاکستانی حکام اپنی استعداد سے زیادہ باور کر رہے ہیں۔20-21دسمبر کو فرانس میں ہونے والی میٹنگ میں کابل کی ہائی پیس کونسل کے نمائندوں، طالبان، ناردرن الائنس اور خواتین کے بشمول دیگر گروپوں کے درمیان اہم پیشرفت دیکھنے میں آئی۔
کانفرنس میں بیان دیتے ہوئے طالبان کے نمائندوں نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر دیا مگر ناردرن الائنس اور دیگر گروپوں سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ان ابتدائی بات چیت کے علاوہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تاحال ایسا کوئی فریم ورک موجود نہیں جو سنجیدہ امن مذاکرات کے لئے بنیاد فراہم کر سکے جیسا کہ افغانستان میں امریکہ کے سفیر نے گزشتہ ہفتے کہا کہ افغانستان میں مصالحت کا عمل تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ مختلف افغان گروپوں کے مذاکرات کی ایک میز پر بیٹھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اب افغان مسئلے کا حل نکل آئے گا مگر اس کے باوجود کابل، اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین زور شور سے مذاکرات جاری ہیں کہ طالبان کی جانب کس طور ہاتھ بڑھایا جائے۔
اس دوران پاکستان نے متعدد راستوں کو سپورٹ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر ساتھ میں زور دیا ہے کہ یہ راستے دو طرفہ ہونے چاہئیں۔ حقیقی پیشرفت کی خاطر متعدد راہوں سمیت قیام امن کی متعدد کاوشوں کو سر کرنا ہو گا تاکہ مجوزہ پروسیس تمام اہم فریقین کے لئے قابل قبول ہو ورنہ سفارتی توانائی بکھری ہوئی کوششوں میں ضائع ہو جائے گی۔ طالبان کا آفس ایک بار دوہا میں قائم ہونے کے بعد مستحکم امن عمل کے آغاز میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تاہم اس راہ میں بھی بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں دور کیا جانا ہو گا۔
اس سلسلے میں کارروائی کے آغاز کے لئے اوباما انتظامیہ کو نہایت سرعت کے ساتھ عمل کرنا ہو گا۔ اس تناظر میں فریقین کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات کی حیثیت بھی متعین کی جانی ہو گی۔ دوسری طرف صدر کرزئی کو خدشہ ہے کہ دوہا میں طالبان کے دفتر کے قیام سے توجہ کا ارتکاز کابل سے ہٹ جائے گا اور اس طرح انہیں ایک طرف لگا دیا جائے گا۔ توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس جانب امریکی کوششوں میں اضافہ ہو جائے گا مگر اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کیا پیشکش کرے گا کیوں کہ طالبان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ آئندہ دو سالوں میں زیادہ تر امریکی فوجی دستے افغانستان سے نکل جائیں گے۔
پاکستان نے اپنی جانب سے قطر پروسیس کے لئے معاونت کا عزم ظاہر کیا ہے اور رواں ہفتے اسلام آباد میں امریکی حکام کی آمد اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو سکتی ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے سنجیدہ امن عمل کے قیام کے اقدامات پر زور دیتا آیا ہے۔ پاکستان نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام آباد، کابل اور واشنگٹن کو تشدد میں کمی اور بتدریج جنگ بندی کے لئے کوئی سیاسی حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے۔ یہ بات تاحال غیر یقینی ہے کہ کس مرحلے پر امریکی جنگ بندی کی آواز اٹھائیں گے مگر افغان ’روڈ میپ‘ میں سال رواں کے آخری چھ مہینوں میں سیز فائر کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ فرائس میں میٹنگ کے دوران طالبان نے ایک بار پھر اپنے معروف بنیادی مطالبات کو دہرایا مثلاً تمام غیر ملکی فوجوں کی واپسی، غاصبیت کا خاتمہ، آئین میں اسلامی اصولوں کے مطابق تبدیلی، طالبان رہنماؤں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست سے ان کے ناموں کا اخراج وغیرہ۔ 2014ء کی قریب آتی انخلاء کی تاریخ کی روشنی میں امن مذاکرات میں بہت سرعت درکار ہے۔ افغانستان کی سلامتی اور سیاسی تبدیلی کے لئے تمام اسٹاک ہولڈرز کو چاہئے کہ وہ مشترکہ مفاد پر متفق ہوں اور خراب منظر نامے سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ بشمول پاکستان کے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ2014ء ایک اور 1989ء میں تبدیل ہو جائے۔
تازہ ترین