• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ فہیم

  شہر کراچی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، بڑی بڑی پرشکوہ عمارتوں کے درمیان کسی کہن سالہ بزرگ کی مانند کئی قدیم عمارتیں وقت کے نشیب و فرازکو سہتی فخر سے کھڑیں ہیں تو کہیں ختم ہوتی کہانی کی مانند بھولی بسری داستان بن جانے پر تلی ہیں۔یہ پرانی عمارتیں ہندو راجائوں اور برطانوی حکمرانوں نے بنوائیں، جو اس دور کے مقامی کاریگروں کے تعمیراتی فن کی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہ عمارتیں مغلیہ ، گوتھک، وینس اور وکٹوریہ ادوار کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں۔شہر کا مرکز کہلانے والے، ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک کی اہم شاہراہ اور اس سے متصل علاقوں میں زیادہ تر عمارتیں پرانے دور کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ عمارتیں تقریبا 150 سال پرانی ہیں۔ان میں سے کچھ کے بارے میں نذرِ قارئین ہے۔

ڈینسو ہال

ایم اے جناح روڈ پر واقع ڈینسو ہال انگریز حکومت کی لائبریری تھی، جسے 1886ء میں تعمیر کیا گیا۔یہ لائبریری کراچی بندرگاہ میں تعینات افسران کے لیے بنائی گئی تھی۔ افغان جنگ میں مالی معاونت فراہم کرنے پر برطانوی حکومت نے سماجی رہنما ایڈلوجی ڈینسوکو اعزاز سے نوازنے کے لیے یہ عمارت ان کے نام سے منسوب کی۔اس عمارت کو جیمزا سڑاچن(James Strachan) نے ڈیزائن کیا تھا جو ریتیلے پتھر سے بنائی گئی ہے۔

میری ویدر ٹاور

قیام پاکستان کی ابتداء میں سمندری سفر سے واپسی پر جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے۔ اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےکراچی میں ٹاور سے مراد کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چند ریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم میری ویدر ٹاور قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹاور کے علاقے کو تجارتی لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میںدفاتر اور بینک شامل ہیں۔ ٹاور کے قریب شہر کے مشہور کاروباری مراکز کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت بھی قائم ہے ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کر رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح ”میری اور ویدر“ کہیں غائب ہے عوام کے ذہنوں میں اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام یعنی ٹاور۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود یہ عمارت دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستگی کا شکار ہو رہی ہے۔

وزیر مینشن

بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے، عظیم رہنما کے یوم پیدائش کے موقع پر وزیر مینشن کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے۔ پیلے پتھروں اور لال جالیوں والی سادہ، پر وقار وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔

تقریباً ڈیڑھ صدی پرانی تاریخ کی حامل اس عمارت کو مزید دلکش اس میں رکھی بابائے قوم کی استعمال شدہ اشیاء بنا دیتی ہیں۔ پورے پاکستان میں قائد کے زیر مطالعہ رہنے والی قانون کی کتابیں صرف وزیر مینشن میں ہی موجود ہیں۔ بابائے قوم کا بستر، کچھوے کی ہڈی سے بنا چشمہ، قیمتی کپڑے، جوتے، قلم اور دیگر اشیاء کے ساتھ قائد اعظم کی زوجہ رتی جناح کا فرنیچر بھی یہاں نفاست اور احتیاط سے رکھا گیا ہے۔

جہانگیر کوٹھاری

کراچی کے ساحل کلفٹن پر بنا باغ ابن قاسم صرف ایک پارک ہی نہیں شہر کی 99سالہ تاریخ کا جھرونکہ ہے۔اگر پتھروں کو زبان مل سکتی تو یہ اپنے اندر چھپے ڈھیروں راز اورشہر سے جڑے ہزاروں واقعات ضرور سناتا۔عمارت کے بیرونی حصے پر ایک عبارت لکھی ہے ۔جہانگیر کوٹھاری پریڈجو یہاں آنے والے ہر فرد کو دور سے ہی دکھائی دے جاتی ہے۔ یہ قطعہ اراضی کراچی کے ایک ممتاز شہری جہانگیر ایچ کوٹھاری کی ملکیت تھا، جنہوں نے اسے تفریح گاہ بنانے کے لئے میونسپلٹی کو عطیہ کرنے کے ساتھ ساتھ تین لاکھ روپے بھی دیئے تھے ۔عمارت جودھ پور سے لائے گئے پتھر سے تعمیر کی گئی تھی، جسے جودھ پوری پتھرکہاجاتا تھا۔پتھروں پر کندہ یہ عبارت گواہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد 10 فروری 1919کو بمبئی کے گورنر جارج لائیڈ نے رکھا تھا ۔یک سال کی مدت کے بعد سن 1920کو ان کی تعمیر مکمل ہوئی ،جس کی خوش میں یہاں ایک تقریب بھی منعقد ہوئی ۔یہ تقریب لیڈ لائیڈ ممبئی کے گورنر جارج لائیڈ کی اہلیہ کے ہاتھوں انجام پائی۔

عمارت کے بیرونی حصے میں ہی قائم ایک اور عمارت ‘ہوا بندر’ کے نام سے منسوب ہے ۔ آج یہ عمارت ایک کو نےمیں سمٹی نظر آتی ہے، مگر کچھ سال پہلے تک اس کے اریب قریب میدان ہواکرتا تھا اور یہاں پکنک منانے کی غرض سے آنے والے لوگوں کی گاڑیاں کھڑی ہوا کرتی تھیں جبکہ آج یہ منظر بالکل ہی بدل گیا ہے۔

مہٹہ پیلس

سیورتن چندرا مہتہ نے 1927میں یہ محل گرمیاں گزارنے کے لیئے شہر کراچی میں بنوایا تھا، اس عمارت کواس وقت کے مشہور معمار آغا احمد حسن نے ڈیزائن کیا تھا، اس کے اندر ایک میل لمبی سرنگ ہے جو مندر سے جاکر ملتی ہے، یہ عمارت اپنی پرسرار کہانیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے، قیام پاکستان کے بعد 1960 میں محترمہ فاطمہ جناح کو یہ رہائیش کے لیے دی گئی، پھر اس کے بعد ان کی ہمشیرہ شیریں جناح یہاں رہیں، ان کے انتقال کے بعد اس کو میوزیم بنادیا گیا ہے۔

فلیگ ہاؤس

قائداعظم ہاؤس میوزیم دس ہزار 214 گز پر محیط ایک حویلی نما بنگلہ ہے جسے اس وقت کے معروف معمار ایچ سوماک نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے تعمیر کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد معروف صنعت کار رام چند کچھی اور سہراب کٹرک نے بھی کچھ دن یہاں رہائش اختیار کی تھی۔

اس عمارت کو قائد آعظم محمد علی جناح نے 1947میں رہائش کے لیئے سہراب کڑک سے خریدا تھا، اسے معمار انگریز فوجی افسر مونکرف ڈیزائن کیا تھا، ایک اندازے کے مطابق یہ عمارت 1865میں بنائی گئی۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943 میں اس دیدہ زیب عمارت کو دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ایک لاکھ 15 ہزار روپے میں اسے خرید لیا۔ اور برطانوی فوج سندھ کے کمانڈنگ آفیسر جنرل ڈگلس گریسی ان کے کرائے دار رہے۔

تازہ ترین