• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو گو ہرِ شہوار۔پر و فیسر عبد ا لغفور ، قاضی حسین احمد

دو عہد ساز شخصیات آناََ فاناََ ہم سے جدا ہو گئیں ۔ایسے کہ سارے ملک کو ویران کر گئیں ۔پر وفیسر عبد ا لغفور جمہوریت جبکہ قا ضی حسین احمد نظریہ پاکستان اور اتحا د بین المسلمین کے لئے نا قا بل فراموش خد مات کے انمٹ نقوش چھوڑگئے ۔گھر والوں اور دوستوں کی طرف سے شدید احتجاج کہ قا ضی صا حب اور پر و فیسر صا حب کی خد مات پر ہدیہ تبریک میں کو تاہی کیو ں؟میری خوا ہش تھی کہ ایسے نایاب گو ہرِ دین ودانش پر اپنی تحریر کو سیاسی شو ر و غو غا ، لانگ مارچ، دھرنا کی نذر نہ کر وں ۔ علامہ قا دری صا حب کی طو فان میل نے پورا مہینہ تہلکہ مچائے رکھا ۔ملکی سیاست اُتھل پُتھل کر کے رکھ دی اور یہ کریڈٹ ان سے کیسے اور کیوں چھینا جائے ۔صا دق اور امین کی شرط یاد دلا کر گویا بیل کو سرخ کپڑا دکھا دیا ۔مو شگافیاں اور تو جیحات بے شمار لیکن” جوا ب ند ارد“۔ 62/63 کی پامالی کرنے والے قا ئدین ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو چکے ۔نسیم حجازی کے پروں والے گھوڑے پر سوار مجاہد لکھاری اپنے مالک کی طرح حوا س باختہ ہوچکا۔ وائے بد نصیبی مجا ہد نے کیسا رزق پایا ۔اندیشہ ہائے مستقبل اور وسوسوں نے قا ئدین کو بھی نفسیاتی مریض بنا دیا۔ عمران کی ذات کو ہدف بنانا ہی تو لکھا ریوں کی نو کری کی پہلی شرط ہے کیو نکہ قا ئدین کی تکلیف کی وجہ سو نامی خان کی ضربت ِ کاری ہی تو ہے ۔دو سری طرف قا دری صا حب کے خا ئن اور عہد شکنوں کی تطہیر کے مطالبے پر حوا ری لکھاری لر زہ بر اندام نظر آتے ہیں۔ مالکوں پر برا وقت ہے اس دفعہ معا ہدہ ہو گا اور نہ فائیو سٹار فراری کیمپ جا ئے اماں ہو گی ۔شیدے میدوں کو یہ نہیں پتا کہ ان کے تاجرانہ الفاظ اپنی قد رو منزلت کھو چکے ہیں۔ گراوٹ اور پستی ایسی حا ئل ہے کہ قا ئدین کے انجام کا ادراک ہی نہیں۔بجائے شرمسار ہو نے کے”چور نالے چتر“کے مصداق ہو چکے۔ قادری کی ڈانٹ ڈپٹ اور ان کی ذات کو نیست و نابود کرنے کا لا متناہی سلسلہ جاری و ساری جبکہ صا دق و امین کی شرط نے گو یا ہل چل مچا دی ۔ کاش ایسے مطالبات اسی شدومد سے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے بھی اٹھا ئے جاتے۔ علامہ اقبال کا دکھ بھی ایسا ہی تھا ”کہ در کھانوں کا منڈا ”جنون “کی بازی لے گیا جبکہ ہم” خرد“ کی گتھیاں سلجھاتے رہے“ ۔
استعماروطن ِ عزیزکے بخیے ادھیڑنے میں ہمہ تن مصروف جبکہ ہمارے سیاستدان شا طر کی بساط پر مہر و ں سے زیادہ کچھ نہیں ۔ حرام کی کمائی سے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک کے نادار و ناچار عوام تو کیا پورے ملک کے مستقبل کا کوئی بھی سودا ہو سکتا ہے ۔ قوم کی قسمت نے اتنی انگڑائی ضرور لی ہے کہ عو ا م الناس تبدیلی کی مبہوم امید پر بھی مشقت میں مصروف نظر آتی ہے ۔قا دری کے دھرنے نے تو ان کی چیخ نکال دی ۔جوا بی فرمودات سنیں،”فوج کے گماشتے ہیں۔ ایسا مطالبہ کرنے والے فوج کو دعوت دے رہے ہیں ، 62/63پرخودپورے نہیں اترتے۔ 62/63کے اطلاق کا مطلب، کو ئی بھی الیکشن نہیں لڑ پائے گا مطلب یہ کہ پوری قوم میں ہزار افراد بھی ایسے نہیں جو صا دق اور امین کے معیار پر پورے اترتے ہوں “۔ایک ہیجان بر پا ہے اور قا ئدین بمعہ اپنے لکھا ریوں کے اسکی گرفت میں۔برادرم احسان اللہ وقاص اخلاص کے ساتھ سیخ پا کہ میں قادری کی مدح سرائی میں کیوں رطب ا للسان ہوں؟شاہ صاحب میرا کیس قا دری کی ذات کا دفاع نہیں۔ ہمارے قائدین پاکستان کی بیخ کنی کے عمل میں جس طرح استعمار کے ممدو معا ون بن چکے ان کو روکناہماری ذمہ داری ہے ۔اگر پاکستان کے دفاعی اثاثوں (فوج اور ایٹمی ہتھیار )کو بچانا ہے تو عالمی طاقتوں کے آگے پگھل جانے والے رہنماؤں کو اپنے ماضی کے کر توتوں کا حساب چکا نا ہو گا ۔
ایسے حا لات میں چٹان مانند قا ضی حسین احمد اور پروفیسر غفور صا حب کی کمی کہیں زیادہ ہی محسوس ہو تی ہے۔ جان تو فانی ہے لیکن آن کو دوام حا صل ہے۔ آج اپنے رب کے سامنے ایسے پیش ہوئے کہ نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اس نوید کے سا تھ کہ سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ”اے نفس مطمئنہ چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے نیک انجام بنا)رب سے راضی اور رب کے نزدیک پسندیدہ۔ پس شامل ہو جامیرے نیک بندوں میں اور داخل ہو جا میر ی جنت میں “(الفجر 27-30)۔
یہ حق تعا لیٰ کا اپنے بندے سے وعدہ اور اللہ اپنے وعدے کا پاس رکھنے والا ہے ۔فرمایا ۔”اے ایمان والو ! تقویٰ اختیار کرو اورسچے لو گوں کے ساتھی بن جاؤ “یعنی یہ بات بھی حتمی ٹھہری کہ کوئی زمانہ سچے لوگوں سے خا لی نہ ہو گا اور یہ اللہ کا اپنے بندوں پرخاص انعام ہے ۔یعنی ہر زمانے میں ایسے نیکو کار مو جود رہیں گے جن سے رہنمائی ملتی رہے گی۔قا ضی صا حب اور پر و فیسر صا حب نے4 دہائیوں سے زیادہ سیاسی زندگی اس ڈھب سے گزاری کہ آ ئینی زبان میں بمطابق62/63 ایک” کامل نمونہ“ ۔میرا دونوں رہنماؤں سے خصوصی اور ذاتی تعلق رہا۔ پر وفیسر غفور فطر تاََشر میلے ، INTROVERT اور منکسر ا لمزاج لیکن انتہائی زیرک۔ پہلا تعا رف 1973میں اسلام آبادمیں ہوا جب 1973 میں قائداعظم یونیورسٹی میں داخل ہوا اور چند ہفتوں میں جمعیت کے پلیٹ فارم پر جنرل سیکر یٹری اور بعد میں صدر طلبہ یو نین منتخب ہوا۔ پروفیسر صاحب سے میری نیا بت کا یہیں سے آغازہے ۔ اُن کی صحبت میں پیش آنے والے درجنوں واقعات میں سے دو وا قعات نذر کئے بغیر شاید تسلی نہ ہو ۔1974 میں پروفیسر صاحب کے ہمراہ میر پور آزاد کشمیر جلسے میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں پر مولانا یوسف بنوری  صدر جلسہ تھے ۔ جلسے کے بعد مولانا مارے تھکاوٹ چارپائی پر دراز ہو گئے۔ کھانے کے بلا وے پر اٹھنے لگے توپروفیسر صاحب جلدی سے اٹھے اورمو لانا کے جوتے اٹھا کرچارپائی سے لٹکے پاؤں میں پہنا دئیے۔ اسلام آباد واپسی کے سفر کے دوران استفسار کیا کہ آپ نے تو سارا دن اپنے آپ کو مولانا کی خدمت میں وقف رکھا۔ انہوں نے دو باتیں بتائیں” بنوری صا حب جیسے جید عالم دیں ، متقی ، پرہیزگار بندے کی صحبت ہماری ہی خو ش نصیبی تھی اور اسکا خا طر خوا ہ فائدہ نہ اٹھا نا بد قسمتی ہو تا “ اور پھر ایک وا قعہ سنایا۔ ”1958میں ایک نوجوان کی حیثیت سے بنوری صاحب کو ان کے گھر جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون اور رویہ بہتر کرنے کی گزارش ۔ مولانانے مجھے سخت الفاظ سے نواز کر زبردستی نکال کر کواڑ شدت سے بند کر لئے ۔یہاں مجھے یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ مجھے اس کا کوئی قلق نہیں “۔
دوسرا واقعہ 1981 میں پروفیسر صاحب امریکی دورے کے دو ران میری دعوت پر UNIVERSITY TECH TEXAS تشریف لائے کچھ دن قیام فرمایا اس دوران بے شمار تقریبات منعقد ہوئیں ۔ مقامی ٹی وی اور اخبارات نے دورے کو وسیع کو ریج دی ۔ ایک تقریب جس کا ذکر ضر و ری ہے ۔ یونیورسٹی میں منعقد ہوئی جہاں پر تقریباََ دس ہزارکے لگ بھگ امریکی اورسینکڑوں غیر ملکی طلبہ تھے ۔ پروفیسر صاحب جنہوں نے پوری زندگی 10/15 منٹ سے زیادہ خطاب نہیں فرمایا ہمیشہ کی طرح اُس مو قعہ پر بھی دریا کو کوزے میں اس طر ح بند کیا کہ سامعین مبہوت ہو کر رہ گئے۔انہی دنوں پورے امریکہ میں سرکاری سطح پر” گاندھی ہفتہ “منایا جا رہا تھا۔ ایک ہندو پروفیسر نے سوال داغا کہ گاندھی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟پروفیسر صاحب نے ترت جواب دیا کہ” گاندھی جی پاکستان بننے کے سخت مخالف تھے اور پاکستان آج ایک حقیقت ہے اور میر ی شناخت بھی“۔
1973کا آئین، قا دیانی مسئلے کے اوپر مقننہ کی متفقہ قرار داد اور آئینی ترمیم ،تحر یک نظامِ مصطفی ، بھٹو صاحب کے ساتھ انتخا بی شفافیت پر میر ا تھن مذا کرات یا ضیا الحق کے مارشل لاء کے اوپر جماعت اسلامی کے مو قف کی مو جو دگی میں مارشل لائی حکومت سے شدید اختلاف اُن ہی کے جمہوری مزاج کا شا خسا نہ رہا ۔(جاری ہے)
تازہ ترین