کوشش کرتا ہوں کہ رمضان المبارک میں دنیا سے دور رہوں مگر پھر بھی لوگ کھینچ لیتے ہیں، مجبوراً کچھ افطاریوں پر جانا پڑتا ہے۔ دل بہت کوستا ہے، یہ کیسی افطاریاں ہیں کہ افطار کرنے والوں کی فہرستیں بنتی ہیں، ان فہرستوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہیں کوئی غریب اس کا حصہ نہ بن جائے۔ یہ افطاریاں بھی دراصل میل ملاپ کا بہانہ ہیں، افطار کروانے والوں کو ثواب سے کوئی غرض نہیں اور افطار کرنے والوں میں روزہ داروں کی اکثریت نہیں ہوتی۔ بس اس معاشرے کا یہ چلن عام ہے، اگر خوف خدا ہوتا تو لوگوں کے آنگنوں میں بھوک ہوتی؟ معاشرے میں لوگ ایسے نہ ترستے۔ ٹرسٹوں کے نام پر دولت اکٹھی کرنے والے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گھروں میں فاقے ہیں، کبھی کسی نے سوچا کہ اسلام ہمسائے کے حقوق کیا بتاتا ہے، محلات کے گرد غریب بستیوں میں رہنے والے بھی تو ہمسائے ہی ہیں۔ یہ معاشرہ پہلے دکھوں اور غموں کی کہانیاں بیان کرتا تھا، اب اس میں درندے بھی آن بسے ہیں۔ پچھلے چالیس سال کی تصویر میں ظلم ہے، اندھیرا ہے، بےکسی ہے، بےبسی ہے، اندھیر نگری ہے، درندگی ہے، سینہ زوری ہے، راہزنی ہے، یہاں عزتیں چوراہوں میں نیلام ہوتی ہیں، یہاں کی گلیوں میں، ہر بستی میں کوئی نہ کوئی’’فرشتہ‘‘ ہے۔ ایک ’’فرشتہ‘‘ کو رونے والو یہاں فرشتوں کی قطاریں ہیں۔ یہاں ہر بستی بےحسی کی زبان بولتی ہے، یہاں فضائیں ظلم پر ماتم کرتی ہیں۔
لوگو! درندے باہر سے نہیں آتے، تمہارے آس پاس ہی تو رہتے ہیں، کچھ رشتوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں، کچھ احساس کو روند کر درندگی کے بعد لاشوں کو مسخ کردیتے ہیں، کچھ لاشیں پھینک دیتے ہیں اور کچھ لاشوں کو چھپا کر دفن کردیتے ہیں۔ یہاں ہر لمحے کوئی زینب، کوئی فرشتہ عتاب کا شکار بنتی ہے۔ تمہارے معاشرے میں سو بچوں کا قاتل پیدا ہوتا ہے، تمہارے معاشرے کے جنونی سیریل کلنگ کرتے ہیں، بچے بچیاں غیر محفوظ، عورتیں غیر محفوظ، غریب ہونا جرم، یہ ہے تمہارا معاشرہ، تم خود کو مسلمان معاشرہ کہتے ہو؟ تمہارے کرتوت دیکھ کر دنیا شرماتی ہے، تم دو دن شور کرتے ہو پھر ظلم کو برداشت کر لیتے ہو، کیا کسی مغربی ملک میں ایسا ہوتا ہے؟
اے لوگو! کبھی سوچو، تمہارے ہاں یہ اندھیر نگری کیوں ہے؟ تمہارے معاشرے میں بعض جرم ایسے ہوئے کہ دنیا میں اس سے پہلے ہوئے ہی نہیں تھے، ایسا تو بنی اسرائیل کے عہد میں بھی نہیں ہوا تھا کہ خواتین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بےحرمتی کی جاتی مگر یہ سب کچھ تمہارے معاشرے میں ہوگیا۔ اب تو تمہارا معاشرہ درندگی کی فلمیں بناتا ہے، فلمیں بنا کر بلیک میل کرتا ہے، دنیا میں کہیں ایسا ہوا تھا کہ قبروں سے لاشیں نکال کر مردہ جسموں کے پائے پکائے جائیں، آپ کے ہاں تو یہ بھی ہوگیا۔ ریپ کی دردناک کہانیاں تو خبروں کا معمول بن گئی ہیں۔ پھر کہتے ہو یہ مسلمان معاشرہ ہے، کبھی سوچا کہ روز قیامت کیا چہرہ دکھائو گے؟
اے پیارے لوگو! کبھی سوچنا کہ تمہارے معاشرے میں کس قدر جھوٹ ہے، جہاں سچ کا ملنا محال ہوجائے وہاں رحمتیں کیسے نازل ہوں۔ تم تو قبرستانوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا دیتے ہو، تم یتیموں کی زمینوں پر قبضے کرتے ہو، تمہارے ہاں بیوائوں کا جینا مشکل ہے، تم غیبت کرتے ہو، ظلم کرتے ہو، چوری کرتے ہو، ڈاکے ڈالتے ہو، افلاس کی بستیاں آباد کرتے ہو، تمہارے ہاں زکوٰۃ بھی ٹھیک طرح سے تقسیم نہیں ہوتی، تم تعلیم کے نام پر تجارت کرتے ہو، تم مسیحائی کے نام پر دکھ بانٹتے ہو، تم ملاوٹ کرتے ہو، رشوت لیتے ہو، اختیارات کا ناجائز استعمال تمہارے ہاں عام ہے، تمہاری افسر شاہی دولت کی ہوس میں اندھی ہو چکی ہے، تمہارے تھانوں میں ظلم بولتا ہے، تمہاری جیلوں میں غریب تڑپتے ہیں، تمہارے اسپتالوں میں علاج میسر نہیں، تم ذخیرہ اندوزی کرتے ہو، تم ناپ تول میں ڈنڈی مارتے ہو، تم حرام جانوروں کا گوشت کھلا دیتے ہو، تم دھوکہ دیتے ہو، تمہارا تاجر لوٹ مار کرتا ہے، ناجائز منافع خوری کرتا ہے اور پھر آخری عشرہ مدینے میں گزار کر جنت کا ٹکٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ کیا اس تاجر کو یاد نہیں رہتا کہ مدینے والے نے فرمایا تھا ’’ذخیرہ اندوزی جرم ہے، کم تولنا جرم ہے، ناجائز منافع خوری حلال نہیں‘‘ کیا تمہارے تاجر کو یاد نہیں رہتا کہ مدینے والےﷺ نے فرمایا تھا ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔
اے لوگو! کیا تمہیں یاد نہیں کہ تمہاری پولیس کئی بےگناہوں کو گولیوں سے بھون دیتی ہے، جھوٹے مقدمات بناتی ہے، کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارے طاقتور مافیاز کے سامنے شرافت ہار جاتی ہے، ایمانداری شکست کھا جاتی ہے، تمہارے ہاں امیر غریب کے لئے قانون مختلف ہے، تمہارے ہاں انصاف نہیں ملتا۔ دنیا بھر میں مارکٹیں شام چھ سات بجے بند ہو جاتی ہیں مگر تمہارا تاجر یہ کرنے نہیں دیتا، ہڑتالیں کرتا ہے، کیا تمہارے ملک کی اقتصادی بربادی میں تمہارے اپنے لوگوں کا ہاتھ نہیں؟ ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی مہنگائی کون کرتا ہے؟ اپنی کرنسی کے ساتھ کھیل کھیلنے والے باہر سے نہیں آئے، تمہارے اپنے لوگ ہیں، تمہارے ملک کو لوٹنے والے تمہارے اپنے لوگ ہیں بلکہ بعض تو تمہارے رہنما بھی ہیں، منی لانڈرنگ کرنے والیاں باہر سے تو نہیں آئیں۔ تمہاری فوج کو گالیاں دینے والے باہر سے تو نہیں آئے۔ تمہارے نام نہاد لبرل کیا کھیل کھیلتے ہیں، تمہارے شدت پسند مذہبی لوگ تمہارے اپنے ملک میں آگ اور خون کا کھیل رچاتے ہیں، تمہاری مسجدوں میں، مزارات پر، چوراہوں میں خود کش حملے کرنے والے کون ہیں، کیا یہ تمہارے معاشرے کے افراد نہیں ہیں؟
لوگو! دولت کی پوجا چھوڑ دو، حرام حلال میں تمیز کرو، تمہارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی لئے ہے کہ تم نے حرام حلال میں تمیز چھوڑ دی ہے، جہاں حرام کو حلال سمجھ لیا جائے وہاں ظلم کی بستیاں آباد ہوجاتی ہیں۔ بقول جون ایلیا؎
ہم نے کئے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں
دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے