پوری دنیا میں چند سالوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ دائیں بازو کے نظریات کو مقبولیت مل رہی ہے، اس کو رائٹ ونگ یا رائٹ ونگ پاپولزم (Right-Wing Populism) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز ایک طرح سے ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم سے ہوا تھا۔ اس سے پچھلی چند دہائیوں میں سیاسی درستی کا ایک تصور عام ہو گیا تھا، اس کے تحت بہت سی چیزوں جس میں نسل پرستی، قوم پرستی، دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنا وغیرہ شامل ہیں، کو معاشرے میں برا سمجھا جاتا تھا۔ ان کے حق میں لوگ کھل کے نہیں بول سکتے تھے اور اگر بولتے تھے تو معاشرے کی طرف سے ان کو زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، سوسائٹی کی جانب سے انہیں غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جاتا تھا۔ لیکن بہت سے لوگ اپنے اندر ایسی منفی سوچ مخفی بھی رکھتے تھے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں یہ باتیں کھل کر کہنا شروع کیں تو وہ چیزیں جو معاشرے کے اصولوں ،ضابطوں اور اقدار میں دبی ہوئی تھیں، وہ تیزی سے ابھر کر سامنے آ گئیں۔ قوم پرستی، نسل پرستی اور دوسری اقوام کے لوگ کے خلاف نفرت انگیزی پھیلنا شروع ہوگئی یا موبائل اور سوشل میڈیا کے دور میں پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئی۔ اور یہ کسی ایک ملک یا ایک خطے تک محدود نہیں رہی بلکہ یورپ سے امریکہ اور اب انڈیا تک بھی آ گئی۔
یہ رائٹ ونگ پاپولزم قوم پرستی اور نفرت انگیزی تک محدود نہیں رہا۔ عوام کو جذباتی نعروں میں الجھا کر میڈیا کو دبا دیا گیا، اقلیتوں کے حقوق ان سے چھین لیے گئے اور خود ساختہ نظریات کے تحت کمزور طبقات کو مزید کچل دیا گیا۔ اشرافیہ اور دیگر مخصوص طبقے ایسے حالات میں ریاست کی مدد سے اپنے لئے مالی فوائد سمیٹنے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ امریکہ میں بھی ہوا، یورپ میں بھی اور بھارت میں بھی۔ وہاں کی اشرافیہ نے اپنے لئے نہ صرف لاتعداد فوائد حاصل کیے بلکہ ریاست کو اپنے کاروبار کا محافظ اور مددگار بنا لیا اور پھر اسی پیسے سے اشرفیہ نے قوم پرست سیاسی جماعتوں کی دوبارہ حمایت شروع کر دی۔
جب عوام جذباتی ہوں اور ہر سُو حب الوطنی کی فضا بنائی گئی ہو تو حکومت اپنے آپ کو کو ریاست اور ملک سے وابستہ کر لیتی ہیں، خود پر تنقید کو ریاست پر تنقید گردانتی ہے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کی حب الوطنی پر نہ صرف شک کیا جاتا ہے بلکہ انہیں غدار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب حکومت کی حمایت کرنے والوں کو نوازا جا رہا ہوتا ہے تو اس پر تنقید کرنے والوں پر ظلم و ستم کیا جا رہا ہوتا ہے اور ایسے میں میڈیا کے لوگ بھی آزاد نہیں رہ سکتے۔ جو چند لوگ بھارت میں اس وقت آزاد صحافت کر رہے ہیں وہ اس کی بھاری قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ قوم پرستی کو بڑھاوا دینے کے باعث بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ حقارت آمیز امتیازی سلوک ہونا شروع ہو گیا ہے، وہاں بسنے والے مسلمان بالخصوص اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ آئے دن ایسی خبریں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں یا نچلی ذات کے ہندوؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کے بعض افراد کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ رائٹ ونگ پاپولزم کی وجہ سے ریاست بھی ان معاملات کو نظر انداز کرنا شروع ہو جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا میں ویسی ہی شدت پسندی پھیل رہی ہے جس کا ہم نے کچھ عرصہ پہلے سامنا کیا تھا، اور یہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ شدت پسندی جب ایک دفعہ اپنی جگہ بنا لے تو اس کو ختم کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
مودی کو یہ راستہ اس لیے اختیار کرنا پڑا کیونکہ پچھلے الیکشن میں معیشت کی بہتری اور غریب کی خوشحالی کے جو نعرے لگائے اور وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہو سکے۔ بھارتی انتخابات کے دنوں میں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مودی کا جیتنا پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ بی جے پی چونکہ قوم پرست جماعت ہے، اس لیے اس سے بات چیت کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اگر کسی اور حکومت سے بات کی جائے تو یہی بی جے پی راستے میں رکاوٹ بنے گی اور قوم پرستی کو استعمال کرکے کسی بھی مذاکرات کی کوشش کو ناکام بنائے گی۔ لیکن پہلی بات تو یہ کہ کسی دوسرے ملک کے الیکشن میں کسی کے جیتنے کی خواہش کا اظہار کرنا وہاں کی سیاست کے لیے مناسب نہیں۔ دوسرا یہ وہی مودی ہے جس نے صرف چند ماہ پہلے پاکستان پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی اور جنگی ماحول سے اپنی سیاست کو فائدہ پہنچایا تھا۔ یہ وہی مودی کی حکومت ہے جس کی وزیر خارجہ نے دو دن قبل پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ کھڑا ہونا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے وزیراعظم عمران خان کے بیان کو مودی کے جیتنے پر پر دوبارہ اچھالنا شروع کر دیا ہے۔
بھارت میں رائٹ ونگ پاپولزم اور اشرافیہ کی اپنے مفاد کی جنگ نے جڑ پکڑ لی ہے۔ بھارت کے عوام کو شدت پسندی کے راستے پر لگا دیا گیا ہے اور بہت سے بھارتی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مودی جیتے یا ہارے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انڈیا ہار چکا ہے۔ مودی نے اشرافیہ کو فائدہ پہنچا کے ایلیٹ بزنس کمیونٹی کو تو اپنی طرف کر لیا اور مودی کی جیت کی خبروں پر بھارت کی اسٹاک مارکیٹ بھی کافی بلند ہوئی ہے لیکن بیشتر غریب عوام کو شاید اس کا فائدہ نہیں ہوا۔ انفرادی حقوق، آزادی، اقلیتوں کا تحفظ، میڈیا کی آزادی اور عوام کا شعور مودی حکومت کے دوران مزید متاثر ہوں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اب چونکہ مودی جیت گیا ہے لہٰذا وہ شدت پسندی اور قوم پرستی کو ترک کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرے گا، تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ رائٹ ونگ پاپولزم اور شدت پسندی اگر ایک دفعہ جڑ پکڑ لے، اس کو ختم کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اگر مودی چاہے بھی تو اب انڈیا کو اس پٹری سے نہیں اتار سکتا۔ مودی کی جیت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت لوگوں کی توقعات سے کہیں زیادہ شدت پسندی کی راہ پر سفر طے کر چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کے نتائج بھارت اور اس خطے کے لئے کافی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)