• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کے رویئے سے لوگ ذہنی دبائو کا شکار،اس کا کام صرف پکڑدھکڑ نہیں الزام ثابت کرنا بھی ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نیب ریفرنس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب کے رویئے سے لوگ ذہنی دبائو کا شکار، اس کا کام صرف پکڑ دھکڑ نہیں الزام ثابت کرنا بھی ہے،19 سال سے ملزم کو رگڑا لگایا جا رہا ہے، جس عہدے کی بنیاد پر کرپشن کا الزام ہے اسکا ثبوت تک نہیں دیا، اس طرح سے ٹرائل کرینگے تو اللہ ہی حافظ ہے،جو کیس بنتا ہی نہیں پتہ نہیں کیسے بنا لیتے ہیں،جبکہ سپریم کورٹ نے سابق ڈی ایس پی پنجاب پولیس،نیشنل بینک کیشئر،پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ اکائونٹنٹ کی بریت کیخلاف نیب اپیلیں خارج کردیں جبکہ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار کی ضمانت منظور کرلی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے نیب کے ایک ریفرنس کے ملزم کی بریت کیخلاف چیئرمین نیب کی اپیل کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب کا مقصد صرف ملزمان کی پکڑ دھکڑ ہی نہیں ہے بلکہ عدالتوں میں ریفرنس میں لگائے گئے الزامات کو ثابت کرکے ملزم کو سزا دلوانا بھی ہے،نیب جس کے خلاف کیس بنائے اس کے خلاف شواہد بھی ساتھ لگائے، نیب آخر کرتا کیا ہے،اس کے اسی رویے کی وجہ سے لوگ ذہنی دبائو کا شکار ہیں،چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روزنیشنل بینک میں بطور کیشئر کرپشن کے ملزم عطا اللہ کی بریت کے خلاف نیب اپیل پر سماعت کی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نیب کو سوچنا چاہیے کہ صرف کیس بنانا مقصد نہیں ہے، 19 سال سے ملزم کو رگڑا لگایا جا رہا ہے،جس عہدے کی بنیاد پر کرپشن کا الزام ہے اس عہدے کا ثبوت تک نہیں دیا؟ کیا اسکا مقصد صرف کیس ہی بنانا ہے؟ فاضل عدالت نے ملزم عطا اللہ کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی،فاضل عدالت نے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ کے اکائونٹنٹ کاشف حمیدکیخلاف انکم ٹیکس نہ کاٹنے سے متعلق نیب کے کیس کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ افسران نےاکاونٹنٹ کو اضافی کام سونپا تھا، اکاونٹنٹ کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ ملازمین کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس کاٹے،جس پر پراسیکیوٹرنیب نے کہاکہ اکانٹنٹ کاشف حمید کی غفلت کے باعث قومی خزانے کو 19.7 ملین کا نقصان ہوا ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب اضافی کام ذمے لگائیں گے تو وہ اپنی مرضی سے کرے گا، افسران نے ملزم سے کسی قسم کا تحریری معاہدہ نہیں کیا تھا، اس کیس کو 19 سال گز گئے ہیں،ماشا اللہ اگر اس طرح سے نیب ٹرائل کرے گی تو اللہ ہی حافظ ہے، جو کیس بنتا ہی نہیں پتہ نہیں کیسے بنا لیتے ہیں،بعد ازاں عدالت نے شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے ملز م کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی،عدالت عظمیٰ نے یونیورسٹی آف سرگودھا کے سابق رجسٹرار ر جمیل اصغر کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کو پانچ لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم جاری کردیا،جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ تفتیشی افسر نے بتایاکہ رجسٹرار نے سینڈیکیٹ فیصلے کیخلاف سب کیمپس کی منظوری دی۔انہوں نے کہاکہ میٹنگ میں ہونے والے فیصلے کیخلاف منڈی بہاالدین کیمپس منظور کیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ میٹنگ منٹس سے تفتیشی افسر کی بات ثابت نہیں ہوتی۔انہوں نے کہاکہ کیس فوجداری نہیں بلکہ قانون کی تشریح کا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ عدالتی فیصلے سے مطمئن ہیں۔انہوں نے کہاکہ شکر ہے پہلی بار کوئی اپنے خلاف فیصلے سے مطمئن ہوا، آٹھ ماہ سے رجسٹرار کو بلاوجہ جیل میں رکھا ہوا ہے،بعد ازاں فاضل عدالت نے ملزم کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا،بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے نیب کیس کے ملزم و سابق ڈی ایس پی پنجاب پولیس جہان خان کی ہائی کورٹ سے بریت کے خلاف نیب کی جانب سے دائر کی گئی اپیل خارج کردی ہے جبکہ چیف جسٹس نے دوران سماعت نیب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2001 سے 2019 تک ایک انسان کو آپ فضول میں گھسیٹتے آرہے ہیں،نیب نے جہان خان کو 18 سال تک تنگ کیئے رکھا اس کا حساب کون دیگا؟ قانون تو اپنا راستہ خود بناتا ہے،پھر چاہے کوئی شخص بری ہو یا جیل میں جائے، چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ملزم کی جانب سے محمد صدیق خان بلوچ ایڈوکیٹ پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے کہاکہ نیب نے خود لکھا کہ ملزم کے پاس اپنے 80 لاکھ سے زائد اثاثے تھے اور اسے 120 کنال اراضی اس کے والد، بھائی اور بہن سے وراثت میں ملی تھی ،بعد میں اس نے 46 لاکھ کی پراپرٹی خریدی ہے ،انہوں نے کہاکہ اس پر تو نیب کو جرمانہ ہونا چاہیے، ہم نے تو قانون اور شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے،بعد ازاں فاضل عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیب کی اپیل ملزم کی بریت کے خلاف دائر اپیل خارج کردی ،یاد رہے کہ نیب ریفرنس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم کو دس سال کی قید اور جرمانہ کیا تھا،جس کے خلاف اپیل پر ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کوبری کیا تھا ،جس کے خلاف نیب نے اپیل دائر کی تھی ۔

تازہ ترین