• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج صبح جب وہ نیند سے بیدار ہوا تو پتہ چلا کہ ملک میں انقلاب آ چکا ہے ۔ یہ خبر اسے ٹی وی چینلز کے ذریعے معلوم ہوئی جہاں بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ملک میں انقلاب کی داعی پارٹی اور حکومت کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے جس کی رو سے ”تبدیلی“ کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔گو کہ اس معاہدے میں کہیں بھی انقلاب یا ”چینج“ کا براہ راست ذکر نہیں تھا لیکن ملک میں جاری کئی ہفتوں کی سیاسی بے چینی کے بعد عمل میں آنے والا یہ معاہدہ عوام کے لئے کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔فریقین نے اسے قوم کی فتح قرار دیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ آج کے بعد ملک سے بے روزگاری، مہنگائی،فرقہ واریت ،لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی ،غربت اور لا قانونیت کا خاتمہ ہوگیا ۔اب تمام شہری برابر ہیں ،کسی شوخے امیر کو غریب مراثی پر برتری حاصل نہیں ہو گی ،کوئی جاگیر دار یا وڈیرہ اسمبلی میں نہیں بیٹھے گا بلکہ پڑھے لکھے نوجوان ٹائیاں لگا کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے،محمود و ایاز کویکساں طور پر وی آئی پی ٹریٹ کیا جائے گا ، شیر اور بکری اکٹھے منرل واٹر پئیں گے ،حکمرانوں اور عوام کے درمیان خلیج ربر سے مٹا دی جائے گی اورسیٹھ اپنے ملازمین کو خیرات کے انداز میں تنخواہ دینے کی بجائے اس کا حق سمجھ کرادا کرے گا ۔
یہ خوش کن باتیں سوچ کر اس پر دیوانگی سی طاری ہو گئی، جو خواب وہ برسوں سے دیکھتا آیا تھا بالآخر آج اس کی تعبیر ملنے والی تھی۔ واش بیسن میں منہ ہاتھ دھوتے وقت اس نے سوچا کہ ا ب تاج اچھالنے اور تخت گرانے کا وقت آن پہنچا ہے ۔تاج اچھالنے کے عمل کے دوران کچھ صابن اس کی آنکھ میں بھی چلا گیا ۔انقلاب کی خوشی میں اس نے تین دفعہ شیو کی اور چار مرتبہ خود کو ”ٹک“ لگوا یا مگر سرشاری کے عالم میں پرواہ نہیں کی۔ناشتے کی میز پر بیوی سے جھک جھک اس کا روز کا معمول تھا لیکن خلاف معمول آج اس نے نہایت خوش دلی سے ناشتہ کیا،بیوی نے اس حیرت انگیز رویے کی وجہ پوچھی تو جواب آیا ”ملک میں چینج آ سکتی ہے تو مجھ میں کیوں نہیں آ سکتی ؟“وہ نیک بخت منہ دیکھتی رہ گئی۔بیوی کو یونہی حیران چھوڑ کر اس نے اپنی پھٹیچر سی موٹر سائیکل نکالی جو اتفاق سے پہلی کک پر ہی سٹارٹ ہو گئی،یہ بھی انقلاب کا ہی معجزہ ہے ،اس نے دل میں سوچا اورایک شان بے نیازی کے ساتھ گردن اکڑا کر کسی مغل بادشاہ کے انداز میں موٹر سائیکل پر سوار ہوکر دفتر چل دیا۔
راستے میں اس نے لوگوں کو دیکھا جو معمول کے مطابق سر جھکائے اپنے اپنے کاموں کو جا رہے تھے ۔شائد ان بیچاروں کو ابھی علم ہی نہیں کہ ملک میں انقلاب آ چکا ہے ورنہ یہ مردوں کی طرح نہ پھر رہے ہوتے ۔موٹرسائیکل پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے آپ سے باتیں شروع کر دیں۔ آج انقلاب کا پہلا دن ہے لہٰذا آج ہی کچھ اہم فیصلے کرنے بے حد ضروری ہیں ۔اب جبکہ ملک میں ”چینج“ آچکی ہے تو یہ کھٹارا موٹر سائیکل بھی ”چینج“ کرلینی چاہیے۔ ماڈرن کالونی والے ملک صاحب کے پاس چھ سات گاڑیاں ہیں جو انقلاب کے بعد یقینا بحق سرکار ضبط کر لی جائیں گی ،ان میں سے ایک میں الاٹ کروا لوں گا۔خدا کا شکر ہے کہ پھر اس منحوس موٹر سائیکل سے جان چھوٹ جائے گی ،اسے میں محلے کے سب سے مستحق نوجوان کو دے دوں گا ،آخر انقلاب کا فائدہ گراس روٹ لیول تک جانا چاہئے ۔لیکن…یہ میری ذمہ داری تو نہیں … یہ تو حکومت کا فرض ہوگاکہ تبدیلی کا ثمر ہر کسی تک پہنچائے ،مجھے خواہ مخواہ اپنی موٹر سائیکل کسی کو دان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ملک صاحب کی گاڑی کے ساتھ جو ڈرائیور ملے گا ،یہ موٹر سائیکل اس کے حوالے کر دوں گا تاکہ اس کا بھی بھلا ہو جائے اور میرے گھر والوں کو بھی سہولت ہو ، بیچاروں نے بسوں میں بہت دھکے کھائے ہیں ،انقلاب تیرا شکر ہے ۔
صبح کا اجالا پھیل چکا تھا اور سڑکوں پر رش زیادہ ہو گیاتھا ۔اس صبح نو کے لئے قوم نے بڑی قربانیاں دی تھیں، تب کہیں جا کرانقلاب کا یہ سورج طلوع ہو ا تھا ۔لیکن یہ لوگوں کو کیا ہوا ہے ،ان کے چہروں پر کسی قسم کی انقلابی ایکسائٹمنٹ کیوں نہیں ہے ،کیا انہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ملک میں ”چینج“ آ چکی ہے ؟ممکن ہے انہوں نے صبح گھر سے نکلنے سے پہلے اخبار ہی نہ دیکھا ہو ،اس نے اپنے آ پ کو تسلی ٰ دینے کی کوشش کی ،یوں بھی زیادہ تر لوگ دفتر پہنچ کر اخبار پڑھتے ہیں۔مگر اخبار نہ بھی پڑھا ہو ،ٹی وی تو ہر گھر میں ہے ،کیا انہوں نے خبریں بھی نہیں دیکھیں ؟تمام چینلز چیخ چیخ کر انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں اور یہ مٹی کے مادھو بغیر کسی فیس ایکسپریشن کے یوسف بے کارواں کی طرح لہراتے پھر رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ویسے ممکن ہے کہ یہ لوگ انتظار کر رہے ہوں کہ کب حکومت انہیں انقلاب کے نتیجے میں ملنے والی مراعات کا اعلان کرتی ہے! یہ سب باتیں سوچتے سوچتے اسے کچھ الجھن سی محسوس ہونے لگی تھی لیکن پھر ایک عجیب سی آواز آئی اور اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا ۔موٹر سائیکل میں پٹرول ختم ہو گیا تھا ۔انقلاب سے پہلے موٹر سائیکل چونکہ ”ریزرو“ پر چل رہی تھی اس لئے یہ تو ہونا ہی تھا ۔اس نے دھکا لگا کر موٹر سائیکل کو قریبی پٹرول پمپ تک پہنچایا۔”چینج“ آ چکی ہے سو ”فار اے چینج“کیوں نہ ٹنکی فُل کروائی جائے ۔یہ سوچ کراس کے چہرے کی شادابی میں مزید اضافہ ہو گیا ۔پٹرول ڈلوانے کے بعد اس نے دو سو روپے سیلز مین کے ہاتھ پر رکھے اور موٹر سائیکل کو کک ماری ۔سیلزمین نے حیرت سے روپوں کو دیکھا ،پھر یکدم اس کا کالر جھٹکتے ہوئے بولا ”او باؤ،کدھر جاتے ہو، 103روپے لٹر کے حساب سے 978روپے بنتے ہیں، باقی 778نکالو؟“سیلز مین کی بد تمیزی سے اس کا چہرہ لال بھبوکا ہو گیا ۔”دماغ درست کرو اپنا ،انقلاب آ چکا ہے، مہنگائی ختم ہو گئی ہے، اب پٹرول اتنا مہنگا نہیں بک سکتا، جتنے پیسے میں نے دئیے ہیں ،وہی پٹرول کی اصل قیمت ہے۔“یہ سن کر سیلز مین نے اپنے منیجر کو آواز دی ،منیجر نے گارڈ کو بلایا ،تھوڑی ہی دیر میں وہاں ایک مجمع اکٹھا ہو گیا۔ وہ لوگوں کو چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ تبدیلی آ چکی ہے ،آخر لوگ اپنا حق چھین کیوں نہیں لیتے!وہ روہانسی آواز میں دہائی دیتا رہا اور لوگ سنتے رہے۔اتنے میں پٹرول پمپ کا مالک بھی آن پہنچا ،پولیس بلائی گئی اور اُسے پکڑ کر تھانے لے گئی ۔عام حالات میں اگر اسے کوئی کانسٹیبل بھی روک لیتا تو خوف کے مارے اس کا دم نکل جاتا مگر اس وقت نہ جانے کیوں اسے خوشی ہوئی کہ وہ تھانے پہنچ گیا ہے جو ریاست کی عمل داری کا بنیادی ادارہ ہے ۔یقینا یہاں انقلاب با ضابطہ طور پر پہنچ چکا ہوگاچنانچہ اس نے ایس ایچ او کو نہ صرف اپنے ساتھ ہونیوالی ”زیادتی“ سے آگاہ کیا بلکہ کمال بے نیازی سے یہ تڑی بھی لگا دی کہ اگر ا س نے قانون کے مطابق کارروائی نہ کی تو لوگ ایس ایچ او کی پیٹی اتروا کر اسی پیٹی سے تھانیدار کی دھلائی کریں گے ۔ایس ایچ او نے نہایت غور سے اس کی بات سنی اور پھر اسے اپنے ایک معتمد خاص کے حوالے کرتے ہوئے کان میں کچھ ہدایات دیں۔
اگلے روز کے اخبارات میں ایک سنگل کالمی خبر شائع ہوئی ۔”تیس سالہ نوجوان پراسرار حالات میں ہلاک،لاش نہر کے کنارے پائی گئی ،جسم پر تشدد کے نشانات ۔پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا کر تفتیش شروع کردی۔“ انقلاب ،تیرا شکر ہے۔
نوٹ:جو لوگ اب بھی ”تبدیلی“ لانا چاہتے ہیں وہ مجھ سے فیس بک پر رابطہ کر سکتے ہیں
تازہ ترین