• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا زمین سے زمین تک 1500کلومیٹر کے ہدف کو روایتی اور نیوکلیئر ہتھیار سے نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائل ’’شاہین ٹو‘‘ کا جمعرات کے روز کیا گیا کامیاب تجربہ بلاشبہ وطن عزیز کی دفاعی صلاحیت کا اہم مظہر ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ عالمی برادری کیلئے اس پیغام کا اعادہ ہے کہ اسلام آباد ہتھیاروں کی دوڑ نہیں چاہتا مگر اپنی آزادی، سلامتی اور بقا کے تقاضوں سے غفلت کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی اسلحی طاقت خطے میں امن کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ماضی قریب و بعید کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ کمزور ملک جارح طاقت کیلئے تر نوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنی حفاظت کیلئے ایسے عناصر سے چوکنا رہنا اور ضروری تدابیر اختیار کرنا ان کے پڑوس میں رہنے والوں کیلئے بطور خاص اس وقت تک ناگزیر رہتا ہے جب تک قانون قدرت کے مطابق ان کی فطرت انسانیت کی ابدی و آفاقی اقدار کی طرف لوٹ کر نہیں آتی۔ ہتھیاروں کی دوڑ ایسا مشغلہ ہے جس سے جنوبی ایشیا میں گریز کیا جاتا تو یہ خطہ سات عشروں میں معیشت کی وہ طاقت حاصل کرچکا ہوتا جس سے اس کا شمار اثر و رسوخ اور خوشحالی کے لحاظ سے نمایاں ترین علاقوں میں ہوتا۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے خونریزی و جارحیت کے کڑے وقتوں سے گزرنا نہ پڑتا تو اسے ایٹمی طاقت بننے اور میزائل تجربات کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام آباد کے ہمسایوں سمیت عالمی برادری اس پیغام کی روح کو سمجھے اور جنوبی ایشیا ہی نہیں، پوری عالمی برادری کے سنگین مسائل ثالثی، مصالحت اور بات چیت کے پُرامن راستوں سے حل کرا کر دنیا کو کشیدگی سے پاک کرہ بنائیں۔ نئی دہلی میں نئی حکومت سازی کے وقت اسلام آباد کی امن پیشکش اور مل جل کرترقی کا سفر طے کرنے کا تجویز پر سنجیدہ توجہ دی جائے تو اس حقیقت کے واضح ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ خوشحالی کی شاہراہ پر مل جل کر آگے بڑھنے کا راستہ کشیدگی کے مقابلے میں آسان و مسرت بخش ہے۔ تصادم وہ راستہ ہے جس پر قدم رکھنا آسان مگر لوٹنا مشکل ہی نہیں بعض حالتوں میں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین