کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کیساتھ“ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے کہا کہ تحقیقات اور ثبوتوں کے بغیر چیئرمین نیب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ،انہوں نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے تو عدالتیں موجود ہیں،پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ چیئرمین نیب کو ہٹا کر نیا چیئرمین آئے اور مقدمات سالوں تک لٹکتے رہیں،ن لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہئے کہ چیئرمین نیب کو بلیک میل کون کررہا ہے، کیا وزیراعظم یا ان کا میڈیا ایڈوائزری بورڈ چیئرمین نیب کو بلیک میل کررہا ہے اور ان کے کیا مقاصد ہیں،پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھرنے کہا کہ چیئرمین نیب کیخلاف سازش وزیراعظم آفس میں بیٹھ کر تیار کی گئی ہے، چیئرمین نیب کون سی باتیں نہیں مان رہے تھے،ماہر قانون ریما عمر نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کاایک آپشن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیئرمین نیب کو ہٹادیں، ہٹانےسے متعلق نیب قانون غیرمکمل ہے، شہزاد اقبال کا تجزیہ میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال ایک کے بعد دوسرے تنازع میں گھرتے جارہے ہیں، چیئرمین نیب کا اہم ترین عہدہ مسلسل متنازع ہوتا جارہا ہے۔ شہباز گل نے مزید کہا کہ ، چیئرمین نیب کو تنازعات میں گھسیٹنے کی بے تحاشا کوششیں کی گئی لیکن وہ قابو نہیں آئے تو ان کی کردار کشی شروع کر دی گئی اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اس خاتون پر کیسز کیوں ہوتے وہ جیل کیوں جاتیں، ن لیگ جس پارلیمانی کمیٹی کا مطالبہ کررہی ہے اس میں وہ تمام لوگ ہوں گے جن پر نیب کے کیسز ہیں،ن لیگ پچھلے کچھ عرصہ سے ہر دوسرے دن نیب کیخلاف پریس کانفرنس کررہی ہے، چیئرمین نیب کو جو گھسیٹ رہا ہے اسی کا ان پر دباؤ ڈالنے کا ایجنڈا ہے۔ن لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا کہ تحقیقات ہونی چاہئے کہ چیئرمین نیب کو بلیک میل کون کررہا ہے، کیا وزیراعظم یا ان کا میڈیا ایڈوائزری بورڈ چیئرمین نیب کو بلیک میل کررہا ہے اور ان کے کیا مقاصد ہیں، چیئرمین نیب ان کی کون سی بات نہیں مان رہے ہیں،چیئرمین نیب سے متعلق آڈیو ویڈیو سامنے لانے والی خاتون طیبہ گل اور فاروق لون سے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ اچھے لوگ نہیں ہیں، ان کیخلاف نیب میں انکوائری کا معاملہ پرانا ہے، یہ خاتون اکتوبر 2018ء میں گرفتار ہوئی چھ مہینے نیب کسٹڈی میں جیل میں رہی اور دومہینے پہلے ضمانت پر رہا ہوئی ہے، ایک ایسا آدمی جو وزیراعظم کے میڈیا ایڈوائزری گروپ کا کرتا دھرتاہے اس کا اپنا چینل بھی ہے، اگر اس چینل سے چیئرمین نیب کا اسکینڈل سامنے لایا جاتا ہے تو اس بات کی ۔پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھرنے کہا کہ چیئرمین نیب کون سی باتیں نہیں مان رہے تھے جس کی وجہ سے حکومت کو اعجاز شاہ والے طریقے اختیار کرنے پڑے، اپوزیشن چیئرمین نیب پر کیا دباؤ ڈالے گی جس کے لیڈر جیلوں میں پڑے ہیں اور مقدمات بھگتنا پڑرہے ہیں، ن لیگ کی چیئرمین نیب کیخلاف تحقیقات پارلیمانی کمیٹی میں کروانے کی تجویز آئی ہے جس پر پارٹی میں مشاورت کریں گے، اگر حکومت کا احتساب کرنے کا صرف یہی طریقہ نظر آیا تو اس میں ساتھ دیں گے، احتساب کرنے والا غیرجانبدار نہیں ہوگا تو احتساب کے عمل پر لوگوں کواعتبار نہیں ہوگا، اتنے زیادہ تنازعات کے بعد نیب کی ساکھ اور جانبداری پر سنجیدہ سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ماہر قانون ریما عمر نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے سے متعلق نیب قانون غیرمکمل ہے، نیب آرڈیننس میں لکھا ہے کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کے گراؤنڈز وہی ہوں گے جو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کیلئے ہوتے ہیں لیکن طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہیں لکھااس وجہ سے کنفیوژن ہے، اگر کسی قانون میں ابہام یا خاموشی ہو تو اس صورتحال میں جنرل کلازز ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ماہر معیشت مزمل اسلم نے کہاکہ حکومت نے شرح سود بڑھا کر اور ڈالر کو فری مارکیٹ چھوڑ کر لوگوں کا کچھ اعتماد حاصل کیا ہے، مشیر خزانہ نے کمیونیکیشن رواں اور فاسٹ ٹریک میں کردی ہے۔