• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (تجزیہ؛ مظہر عباس) وزیر اعظم عمران خان، جنہیں عید کے بعد ممکنہ مشترکا حزب اختلاف کی مہم سے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ لاحق نہیں، نے مشیر خزانہ کی زیر قیادت زیادہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اپنی نئی ٹیم کی حمایت اس امید کے ساتھ کی ہے کہ وہ ڈیلیور کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹیم بھی ناکام ہوگئی تو؟ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتیں کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کے بعد اپنے منصوبے کا اعلان کریں گی جو ممکنہ طور پر بجٹ کے بعد ہوگی لیکن حزب اختلاف ابھی تک احتجاج کی اسٹریٹجی اور حتمی مقصد پر متذبذب ہے۔ ہر کوئی ’سخت بجٹ‘ کی توقع رکھتا ہے کیونکہ وزیر اعظم خود بھی بہتر مستقبل کیلئے عوام کی حمایت چاہتے ہیں۔ حزب اختلاف کو خدشہ ہے کہ وہ اس پر بھی یو ٹرن لے لیں گے۔ معاشی اور سیاسی استحکام کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مقابلہ اچھی خبر نہیں۔ یہ حزب اختلاف کے لئے آسان نہیں ہوسکتا جیسا کہ انہیں اپنی مہم میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے معنی خیز جوابی بیانیے کی دوہری مشکل کا سامنا ہے۔ دوسرا یہ کہ چند جماعتوں کو یقین ہے کہ یہ بہت جلدی ہے کہ حکومت گرانے کیلئے باہر نکلا جائے۔ اس سے جمہوری نظام کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حزب اختلاف کو اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہئے لیکن اتنی جلدی اپنے پتے ظاہر نہیں کرنے چاہئیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسٹبلشمنٹ مکمل طور پر حکومت کے پیچھے ہے اور ملک میں سیاسی و معاشی استحکام چاہتی ہے۔ دوہری مشکل تو یہ ہے کہ حکومت 9 یا 10 ماہ میں بہت زیادہ غلطیاں کرچکی ہے اور سب سے بڑی غلطی وزیر اعظم کی سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر قیادت اپنی پچھلی فنانس ٹیم پر حد سے زیادہ اعتماد تھا اور ان کا ماننا ہے کہ اسد عمر نے انہیں مایوس کیا۔ یوں پہلے 9 ماہ حکومت کی سیاسی اور معاشی سمت طے کرنے میں تقریباً ضائع ہوگئےجیسا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر سے لے کر قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کرنے تک ناصرف پارٹی کے اپنے ڈھانچے کو مایوس کیا بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ کاروں اور پالیسی سازوں کو الجھن میں ڈال دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے خود ہی وزارت خزانہ اور اس کے متعلقہ محکموں میں چھوٹی بغاوت کردی اور کئی اہم تبدیلیاں کرڈالیں جیسے کہ نئے وزیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر، گورنر اسٹیٹ بینک اور اب فنانس سیکریٹری کے ساتھ ساتھ کئی دیگر تبدیلیاں۔ انہوں نے اپنے وزیر صحت کو بھی ہٹادیا اور اپنی جماعت کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان اختلافات حل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے اب اپنا اعتماد سیاسی ٹیم سے ٹیکنوکریٹس پر منتقل کردیا ہے اور امید ہے کہ نئی ٹیم انہیں مایوس نہیں کرے گی اور کم سے کم اہم آئٹمز کی قیمتیں کم کرنے میں ان کی مدد کرے گی۔ جہاں تک سول اور ملٹری تعلقات کی بات کی جائے تو وزیر اعظم کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں جیسا کہ اسے دس سالوں میں بہترین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان میں قومی سلامتی اور خارجہ امور پر بمشکل ہی کوئی نا اتفاقی ہو۔ حکومت اب تک فوجی عدالتوں میں توسیع جیسے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے، اگر حکومت FATF میں ناکام ہوجاتی ہے تو خود کو بہت ہی مشکل پوزیشن میں پاسکتی ہے جیسا کہ اس کا فیصلہ بھی آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج سے منسلک ہے۔ ان کے نئے فنانس کپتان حفیظ شیخ نے وعدہ کیا ہے کہ دو سے تین سالوں میں معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ صبر سے کام لیں اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں خصوصاً ان اطلاعات کے بعد کہ حزب اختلاف عید کے بعد سڑکوں پر احتجاج کا منصوبہ رکھتی ہے۔

تازہ ترین