• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رینٹل پاورکیس میں وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پرتفتیش کرنے والے نیب کے جونیئرمگر ایماندار آفیسرکامران فیصل کا قتل یاخودکشی اسٹیٹس کوکی ننگی طاقت کی انتہا ہے۔ سپریم کورٹ کے وزیراعظم کوگرفتار کرنے کے حکم کے بعد ایک ہی ہفتے میں نیب کے تفتیشی افسر کو قتل کرنے یا شدیددھمکیوں کے دباؤ سے خودکشی کے اندھے کنویں تک پہنچانے پر اپوزیشن کی جماعتوں کا جس درجے کا ردعمل آنا چاہئے تھا وہ حیران کن حد تک نہیں آیا۔ اسٹیٹس کو پر ”حملہ آور“ ہونے کا باکمال ڈرامہ کرنے والے طاہر القادری نے بھی چپ سادھ لی کہ ایک دن پہلے ہی تو کنیڈین حضرت اسلام آباد کے اسٹیج پر پاکستانی اسٹیٹس کو کے ماہر کھلاڑیوں سے شیروشکر ہو رہے تھے۔ قوم نے یہ حیران کن منظر دانتوں میں انگلیاں ڈالے اس وقت دیکھا جب علامہ صاحب ایک کرب میں مبتلا تھے کہ انہیں یہاں سے کوئی لے جائے، خواہ اس نظام بد (اسٹیٹس کو ) کے پجاری ہی سہی جسے پاش پاش کرنے کا ڈرامہ کینیڈا سے آئے حضرت صاحب نے کنٹینر میں بیٹھ کر رچایا۔ اس کنٹینر میں جس کا انہوں نے 3کروڑ روپے میں یقین کرلیا تھا کہ اسے کوئی پاش پاش نہ کرسکے گا۔ افسوس تو یہ ہے کہ شدید دھمکیوں کا پس منظر لئے کامران فیصل کی معنی خیزموت کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بننے سے قبل جوشدید اور فوری ردعمل ، عمران خان، مسلم لیگ ن اوراپوزیشن کی دوسری جماعتوں کا آنا چاہئے تھا وہ بھی ہرگز نہیں آیا۔ یہ صورتحال اسٹیٹس کو کی طاقت کی اسی طرح تصدیق نہیں کرتی جس طرح اس انتہائی توجہ طلب واقعہ پر طاہر القادری کے چپ سادھنے نے کی ہے؟حالانکہ لیڈر آف دی اپوزیشن چوہدری نثار موجودہ احتساب آرڈی ننس کے مقابل حکومت کے تیار کردہ اس نئے احتساب بل کو اسمبلی میں پیش کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو حکومت میگا کرپشن کیسز میں ملوث اپنے ساتھی ملزموں کو بچانے کیلئے منظور کرکے موجودہ نیب آرڈی ننس کی جگہ جلد سے جلد نافذ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن غیرموثر احتساب بل منظور کرانے کی حکومتی بے چینی، سپریم کورٹ کے رینٹل پاورکیس میں وزیراعظم کوگرفتارکرنے کے حکم، ملک بھرمیں جاری بدترین لوڈشیڈنگ اور کامران فیصل کی معنی خیزموت کے بعدآج چوہدری نثار کی جو ہنستی مسکراتی تصویر پارلیمینٹ ہاؤس میں کھل کھلاتے وزیراعظم سے مصافحہ کرتے شائع ہوئی ہے، وہ نیب کے ا حتجاجی ملازمین کے چہروں اور اجتماعی رویئے سے بھی متصادم ہے اور عوام الناس کے اس اجتماعی غصے سے بھی جو وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم کے چندروز بعد ہی دیانتدار تفتیشی افسر کامران فیصل کی خودکشی یا قتل سے ان میں پیدا ہوا۔ تاہم ان کی یہ تصویر طاہر القادری اور اسٹیٹس کو کے ماہر کھلاڑیوں کی باہمی مبارک سلامت اور بغل گیر ہوتے اس منظر سے ضرور مماثلت رکھتی ہے جسے پندرہ بیس منٹ تک ٹی وی سکرین پر عوام نے حیرت سے دیکھا اوراسٹیٹس کو کی مکارانہ طاقت کے اس منظر سے شدید مایوسیوں میں ڈوب گئے۔ قومی احتساب بیورو کے دیانتدار جونیئرافسر کامران فیصل کی مشکوک خودکشی اورسب کی سمجھ میں نہ آنے والی اچانک اور معنی خیز موت پرکوئی سراپا احتجاج ہوا ہے تو اس کے والدین اور رفقا کار جن کا دعویٰ ہے کہ کامران فیصل کی موت خودکشی نہیں قتل ہے۔ انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق اگر یہ خودکشی بھی ہے تو کامران کو اس اندھے کنویں کے کنارے تک دھکیلنے والا کون ہے؟ اور یہ کس حالت میں یہاں تک پہنچا؟
یہ کوئی لاجواب سوال نہیں اس سوال کے جواب کی تفصیلات پر مبنی خبریں کامران فیصل کی ڈرامائی موت کی خبر کے فالو اپ کے طور پرآناشروع ہوگئی تھیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ ”نیب کے غیرجانبدارتفتیش کے لئے پرعزم نوجوان آفیسر پرخطرناک دھمکیوں سے مسلسل دباؤ ڈالا جارہا تھا، وہ تفتیش سے تو دستبردار ہونے کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ چاہتا تھا کہ اس سے اتنے بڑے بڑے مگرمچھ نہ پکڑوائے جائیں لیکن وہ کسی کے مطلب کی تفتیش کرنے پر ہرگز آمادہ نہ تھا“ آج نیب میں اس کے ساتھی قلم چھوڑ ہڑتال کررہے ہیں تو تین کروڑ کے محفوظ اور سہولتوں سے آراستہ کنٹینر میں اسلامی تاریخی استعاروں سے ”کربلا“ برپا کرکے اسٹیٹس کو کو للکارنے والا کنیڈین ”شیخ الاسلام“کہاں ہے؟ شنید تو یہ ہے کہ دھرنے کے کمبل سے جان چھڑانے میں اہم کردارادا کرنے والے چوہدری شجاعت حسین اب علامہ صاحب کے ساتھ کمبل ہوگئے ہیں اور آئندہ انتخاب میں ”شیخ الاسلام“ سے ان کا کمبل اتارنے کا انعام چاہتے ہیں۔ یا یوں سمجھ لیں کہ چوہدری صاحب بھی توقع رکھتے ہیں کہ ”شیخ الاسلام“ نیکی کا بدلہ ”نیکی“ سے دیں۔گویا اب چوہدری صاحب حضرت صاحب کے اور حضرت صاحب چوہدری صاحب کی محبت کے اسیر ہیں۔ کامران فیصل کے والد کے آنسو پونچھنے اور نیب کے قلم چھوڑ ہڑتالیوں سے اظہاریکجہتی کے لئے اپوزیشن کاکوئی رہنما آگے بڑھا ہے نہ اسٹیٹس کو کو عوامی ریلے میں بہالے جانے کاکوئی علمبردار۔ سو، نظام بد اپنے مکمل ننگ کے ساتھ سر چڑھ کر اپنی مکروہ طاقت کا مظاہرہ کررہاہے۔ پاکستان کی معیشت کو تباہ کردینے والی اور ملک کو اندھیروں میں غرق کرنے والی میگا کرپشن کے تفتیشی افسر کا قتل یا خودکشی کوئی معمولی بات نہیں وہ بھی سپریم کورٹ سے وزیراعظم اور دوسرے 15ملزموں کی گرفتاری کے فوراً بعد نہ جانے اس پر سول سوسائٹی، انصاف کی متلاشی باشعور تنظیمیں کیوں خاموش ہیں؟ شاید اس لئے کہ اسلا م آباد کے ڈی چوک کو قاہرہ کے تحریر چوک میں تبدیل کرنے کے پانچ روزہ ڈرامے کاغوغا ختم نہیں ہوا۔ سوائے پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے کسی بھی قابل ذکرذمہ داراور باشعور حلقے سے کامران فیصل کے خودکشی یا قتل کے بال کی کھال نکالنے کا کوئی سنجیدہ مطالبہ سامنے نہیںآ یا تاہم حوصلہ ہے کہ جوآزاد اور ذمہ دار عدلیہ اب میگا کرپشن کے کیسز میں مکمل سنجیدہ نظرآتی ہے وہ کامران فیصل کی ڈرامائی موت کی غیرجانبدارانہ تفتیش ضرور کرائے گی۔ وگرنہ کامران فیصل کے والد اور ان کے ساتھ میاں چنوں کے شہریوں کے آنسو، نیب کے قلم چھوڑ ملازمین اور پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کا رینٹل پاور کی اربوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے خلاف احتجاج اسٹیٹس کو کی ننگی طاقت کے مقابل کافی ہے؟ یہ درست ہے کہ عدلیہ کی کارروائی کے دوران کوئی عوامی دباؤ درست نہیں، لیکن تبدیلی کے حامیوں کی جانب سے کامران فیصل کی معنی خیزموت کی مذمت اور اس پر متعلقہ سوالات کا اٹھنا بھی ناگزیر ہے۔
تازہ ترین