• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر بارک حسین اوباما نے اپنے بیوی بچوں، امریکی عوام اور دنیا کے سامنے بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنی دوسری چار سالہ میعادِ صدارت کیلئے بھی حلف اٹھالیا اور وہ اس سے قبل وہائٹ ہاؤس سے قریب تاریخی اہمیت کے چرچ میں اپنے خاندان کے ساتھ عبادت کیلئے بھی گئے۔ صدر اوباما کئی اعتبار سے تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ امریکہ ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں پہلا سیاہ فام امریکی صدر جو دو مرتبہ صدر منتخب ہوا ہے۔ مسلمان باپ ، نام اور پیدائش کے ریکارڈ کے حوالے سے متنازع اور نسلی اعتبار سے سیاہ فام امریکی کا امریکی صدارت کیلئے امیدوار بن کر صدر منتخب ہونا بھی تاریخ سازی ہی تھی جو بارک اوباما نے عملاً کر دکھایا جبکہ اوباما کا سیاسی کیریئر بھی خاصا مختصر تھا وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ امریکی سینیٹر کا الیکشن جیت کر ابھی بطور سینیٹر اپنی میعاد بھی مکمل نہیں کرپائے تھے کہ وہ ساری دنیا کو حیرانی میں مبتلا کرکے اپنے ری پبلکن حریف کو انتخابی شکست دے کر امریکی صدر منتخب ہو کر وہائٹ ہاؤس جا پہنچے۔ مجھے بارک اوباما کی پہلی صدارتی انتخابی مہم ، جیت اور صدارت کے جشن فتح میں شرکت کا موقع بھی ملا اور اوباما کے سیاسی کیریئر کے ابتدا کے بعض ان ساتھی اسٹیٹ سینیٹرز سے بھی تبادلہ خیال اور بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ہے جو امریکی ریاست الی نوائے کے ریاستی سینیٹ کے رکن بننے پر بارک اوباما کے ساتھ ریاستی سینیٹرز تھے۔ اس سے بھی زیادہ بہتر موقع مجھے شکاگو سے منتخب سینیٹر امریکی سینیٹر ڈک ڈربن کے ذریعے حاصل ہوا۔ سینیٹر ڈربن نہ صرف بارک اوباما کو اپنا جونیئر سینیٹر منتخب کرانے کی سیاست میں ہی پیش پیش نہیں تھے بلکہ امریکی صدارت کیلئے انہیں آمادہ کرنے، آگے بڑھانے اور بالآخر ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی امیدوار کیلئے نامزدگی دلوانے میں سینیٹر ڈک ڈربن کا تاریخی اور ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ اسی مناسبت سے جب میں سینیٹر ڈک ڈربن کو صدر اوباما کے سیاسی گرو کہہ کر مخاطب کرتا ہوں تو یہ تجربہ کار گورا امریکی سینیٹر عاجزی اور رواداری کے ساتھ مسکراکر خاموش ہوجاتا ہے۔ اوباما کے ان قریبی حلقوں اور شخصیات سے بارک اوباما کے بارے میں گفتگو کریں تو اوباما کی تاریخ ساز شخصیت ، ذہانت و متانت کے بڑے انداز سمجھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ آخر امریکی سیاہ فام جنرل کولن پاول، سیاستدان جیسی جیکسن اور عالمی شہرت یافتہ امریکی اینکر پرسن اوپرا ونفری جیسی کامیاب سیاہ فام شخصیات بھی بارک اوباما کی تاریخی اور صدر کیلئے پہلی ناقابل یقین کامیابی پر سرعام خوشی سے رونے کا جواز رکھتے تھے۔ صدر اوباما نے یہ تاریخ مرتب کرکے رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر انسانی مساوات کے اصولوں کو جو اعتماد اور مضبوطی فراہم کی ہے وہ اس صدی کے انسانوں پر بڑا احسان ہے۔ بہرحال اوباما کے دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے پر بھی تاریخ رقم کی ہے لیکن ان کے حلف کی تقریب میں چار سال پہلے کی طرح کسی گورے یا کالے امریکی کو خوشی کے جذبات سے روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا کیونکہ امریکہ اب ایک سیاہ فام امریکی صدر کے تحت چار سال گزار کر اس تاریخی جھٹکے یعنی تبدیلی کا بھی عادی ہوگیا ہے اور اگلے چار سال بھی اوباما کی صدارت کے تحت گزارنے کیلئے تیار ہے۔ بہرحال صدر اوباما نے امریکہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اگلے چار سال کیلئے اپنے اختیارات سنبھال لئے ہیں جبکہ پاکستان اور دنیا کے متعدد خطے اس تجسس میں ہیں کہ بیرونی دنیا میں صدر اوباما کی خارجہ اور فوجی پالیسی کیا ہوگی؟ یہ تو واضح ہے کہ یہ چار سال صدر اوباما کی سیاسی زندگی کے آخری چار سال ہوں گے اب انہیں اپنے لئے کسی انتخابی یا سیاسی مجبوری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا صرف ڈیموکریٹک پارٹی کے مفاد کا خیال رکھنا ہے، دوسرے امریکی معیشت کو لاحق مشکلات پر قابو پانے، بیروزگاری کم کرنے، ہیلتھ کیئر کی پالیسی پر عمل کرنے والے داخلی معاملات پر توجہ دینا ہوگی اور اس کے مثبت نتائج امریکی عوام کے سامنے اگلے دوسال میں پیش کرنا ہوں گے ورنہ مڈٹرم ہونے پر امریکی سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں اور ایوان نمائندگان کی435 نشستوں پر انتخابات میں ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر سینیٹ اور ایوان کے انتخابات میں ری پبلکن پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی تو پھر صدر اوباما کے بقیہ دوسال کی مدت سیاسی طور پر ایک معذور (LAME-DUCK) صدر کے طور پر غیرموثر انداز میں گزارنا ہوں گے جوکہ صدر اوباما کی شخصیت اور انداز حکمرانی کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ صدر اوباما امریکی فوجیوں کو بھی جنگی محاذوں سے واپس امریکہ لاکر نہ صرف امریکی فوجی خاندانوں میں اپنی پارٹی کی مقبولیت، دفاعی بجٹ اور اخراجات میں کمی اور قوم کو کامیابی کے ساتھ امن کا تاثر دینا چاہتے ہیں جبکہ ری پبلکن پارٹی اور ان کی منتخب قیادت ڈیموکریٹک صدر اوباما کے فیصلوں کی منظوری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ فی الوقت تو ناموافق صورتحال کے باعث ری پبلکن قیادت نے امریکہ کیلئے قرض کے حصول کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے کی مخالفت چھوڑ کر ڈیموکریٹک پارٹی تحریک کی حمایت کرنے کا عندیہ دیا ہے جو اگلے تین ماہ کیلئے صدر اوباما کیلئے ایک اچھی خبر ہے لیکن بقیہ امور پر شکست خوردہ ری پبلکن پارٹی اپنی مخالفانہ حکمت عملی کے ساتھ تیار ہے جبکہ صدر اوباما امریکی معیشت کی بہتری کیلئے اپنی نئی ٹیم سے مشوروں اور پلاننگ میں حلف اٹھانے سے قبل ہی غیرسرکاری طور پر مصروف ہوچکے تھے۔
بیرون امریکہ دنیا کے دیگر ممالک کے بارے میں صدر اوباما کی خارجہ اور فوجی پالیسی کیا ہوگی؟ اس بارے میں کچھ حقائق تو واضح ہیں کہ صدر اوباما2014ء میں افغانستان سے مکمل انخلاء کا اعلان کرچکے ہیں اور اس انخلاء سے قبل صدر اوباما کیلئے یہ لازمی ہے کہ افغانستان میں امریکی فتح کا تاثر قائم ہو جبکہ طالبان کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی کامیابی کا تصور ابھاریں اس کشمکش کے نتیجے میں امریکی ڈرونز حملوں میں اضافہ، افغانستان اور پاکستان میں سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز میں اضافہ اور مقاصد میں تیزی، پاکستان پر دباؤ میں اضافہ، افغانستان میں بھارتی رول میں مزید امریکی تعاون اور حمایت کے علاوہ صدر حامد کرزئی اور دیگر افغان قیادت میں تبدیلیاں سامنے آئیں گی گو کہ امریکہ افغانستان میں ماہرین ، مشیر اور معاونین کی شکل میں امریکی فوجیوں کی کچھ تعداد ضرور پیچھے چھوڑے گا لیکن امریکی فعال رول کے خاتمے کے ساتھ افغانستان میں سیاسی قیادت اور منظر کی تبدیلی صاف نظر آرہی ہے جبکہ اگلے دوسال میں پاکستانی سرزمین اور عوام کیلئے مشکل لمحات میں اضافہ، صدر اوباما کی سخت پالیسی، امریکی امداد کے خاتمے اور امریکہ کی بھارت سے قربت اور پاکستان سے لاپروائی کا رجحان ابھی سے نظر آرہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کیلئے پاکستانی سرزمین اور ساحلوں کا استعمال بھی ہوگا جس کے منفی اثرات کیلئے بھی ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ پاکستان اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ افغانستان سے واپس جاتے ہوئے امریکی فوج جو جنگی سامان پیچھے چھوڑے گی اس میں سے پاکستان کو ڈرونز طیارے یا ٹیکنالوجی اور دیگر سامان تحفے میں مل جائے گا۔ ڈرونز افغانستان کو ملیں گے اور باقی اسلحہ بھی افغان فوج کو ملے گا۔ نئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستانی قیادت اور امور سے واقفیت ضرور رکھتے ہیں مگر وہ اول و آخر امریکہ کے وزیر خارجہ ہوں گے اور امریکی مفادات کے محافظ ہوں گے۔ پاکستانی فوج امریکی دباؤ کا شکار جبکہ سویلین قیادت کا اقتدار امریکہ کی خوشی اور خوشامد سے وابستہ ہے۔ اس صورتحال میں امریکی صدر اوباما کے نئے دور میں پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا اندازہ آپ لگالیں۔
تازہ ترین