• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف گزشتہ روز ان حالات میں پاکستان آئے جب جوہری معاہدے کے تناظر میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ کسی بھی وقت ایک ایسی جنگ چھڑ جانے کا خطرہ ہے جو نہ صرف پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے بلکہ جس سے دنیا کے تمام ملکوں کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ ماہِ رواں میں امریکہ ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں طیارہ بردار جہاز اور بی باون لڑاکا طیارے بھیج چکا ہے جبکہ گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے خطے میں اضافی ڈیڑھ ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کردیا ہے۔ اس سے دو روز پہلے ایرانی وزیر خارجہ نے ایک امریکی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں پوری عالمی برادری کو متنبہ کیا تھا کہ تہران کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو سب کو دردناک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایرانی وزیر خارجہ کی ملاقاتوں میں اسی موضوع کو مرکزی اہمیت حاصل رہی۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد ایرانی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں جواد ظریف کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو ایران کے خلاف امریکی جارحیت کے خدشات کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، انہوں نے خطے کی تمام ریاستوں سے بھی ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی جو ان کے مطابق سب کے مفادات کے منافی ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران میں طے پانے والے فیصلوں پر عمل درآمد پر اطمینان کا اظہار بھی دونوں جانب سے کیا گیا۔ مذاکرات میں دو طرفہ تجارت کے فروغ، عوامی سطح پر روابط میں اضافے، پاک ایران بارڈر پر نئی گزرگاہوں اور نئی بارڈر مارکیٹس کے قیام، پاک ایران سرحد پر سیکورٹی بڑھانے اور افغان امن عمل سے متعلق خصوصی تبادلہ خیال ہوا۔ اس بارے میں دو رائے ممکن نہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان زندگی کے تمام شعبوں میں خوشگوار اور سرگرم روابط دونوں ملکوں کے عین مفاد میں ہیں لہٰذا دونوں جانب سے انہیں مستقل بنیادوں پر مستحکم کیا جانا چاہئے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے اس ضمن میں مثبت اور پائیدار نتائج کا باعث بنیں گے۔ پاکستانی قیادت کو ایرانی وزیر خارجہ نے گوادر اور چابہار بندرگاہوں کو منسلک کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ ان کے بقول چابہار کو گوادر سے منسلک کرکے گوادر کو ایران سے لے کر ترکمانستان، قازقستان، آذربائیجان، روس اور ترکی کے ذریعے پوری شمالی راہداری سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ ایک مفید تجویز ہے، تاہم پاکستان کو اس کے تمام پہلوؤں اور متوقع اثرات و نتائج پر غور و خوض اور چینی قیادت سے مشاورت کے بعد قومی مفاد میں فیصلہ کرنا چاہئے۔ وفاقی حکومت اور آئی ایس پی آر کے اعلامیوں کے مطابق مذاکرات میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کا موقف تھا کہ خطے میں کشیدگی اور جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اور بین الاقوامی سطح پر معاملے کے تمام فریقوں کو بردباری سے کام لینا اور تمام تصفیہ طلب امور کو سفارتی سطح پر حل کرنا چاہئے۔ کرہ ارض کو ہر صورت میں ایک نئی جنگ کے خطرے سے بچانا بلاشبہ پوری عالمی برادری کی سلامتی کا تقاضا ہے۔ امریکی قیادت کو بھی ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے دیکھنا چاہئے کہ پچھلے دو عشروں میں افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کیے جانے کے نتائج کس قدر انسانیت سوز رہے ہیں۔ امریکہ کے لیے افغانستان کی دلدل سے نکلنا جتنا مشکل ثابت ہو رہا ہے، وہ محتاجِ وضاحت نہیں جبکہ شام اور یمن کی خانہ جنگیاں لاکھوں انسانوں کے جان و مال کی بربادی کا سبب بن چکی ہیں لہٰذا اب ایک نئی جنگ چھیڑ کر کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا، بے تحاشا نئی مشکلات البتہ کھڑی ہو سکتی ہیں، اس لیے اس سے گریز ہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ اختلافات کے حل کی تلاش کا مہذب، شائستہ اور نتیجہ خیز طریقہ بامقصد مذاکرات کے سوا کچھ نہیں اور امریکہ ایران اختلافات کا تصفیہ بھی صرف اسی طرح ممکن ہے۔

تازہ ترین