• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت اب تقریباً زعفرانی رنگ (Saffron) میں رنگا جا چکا ہے۔ مودی کی کیسری لہر کے دوش پہ ہندتوا ہندوستان کی قومی و مذہبی شناخت بن گئی ہے۔ انتخابات میں فقید المثال کامیابی کا جشن مناتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی نے ببانگِ دہل اعلان کیا کہ اِن انتخابات میں کسی جماعت کو سیکولرازم کا ذکر کرنے کی ہمت نہ رہی کہ جعلی سیکولر اپنی اخلاقی قوت گنوا چکے۔ مودی کے اِس نظریاتی بیان کی تصدیق ہوئی بھی تو مدھیا پردیش کے شہر بھوپال میں جہاں مالے گائوں، اجمیر درگاہ اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث سدھوی پراگیا سنگھ ٹھاکر کانگریس پارٹی کے بڑے جید نیتا ڈگ وجے سنگھ سے نبرد آزما تھی۔ سدھوی پراگیا نے اپنے حریف کو بھاری اکثریت سے مات دے کر اپنی فتح کو دھرم کی فتح سے تعبیر کیا۔ سدھوی نے مہاتماگاندھی کے جنونی ہندو قاتل نتھو رام گوڑسے کو دیش بھگت قرار دیا، جبکہ اُن کے مدمقابل کانگریسی نیتا ڈگ وجے سنگھ ہرسنت کے پائوں چھوتے اور اور ہرمندر کی پوجا کرتے نظر آئے۔ جہاں مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور دیگر سیفران لیڈرز جارحانہ قوم پرستی اور سخت گیر ہندتوا (Hard Hindutva) کا راگ الاپ رہے تھے، وہاں کانگریسی لیڈرز راہول گاندھی، پریانکاگاندھی بھی ہندو جذبات کی تسلی کے لیے جہاں گئے مندروں میں پوجا پاٹ کرتے نظر آئے۔ ایسے میں ہندتوا کے پرانے سیوک مودی کو اس سے زیادہ کیا قلبی طمانیت مل سکتی تھی۔

پلوامہ کی دہشت گردی کے خلاف قومی غصے کی لہر پر سوار مودی ایک ایسے طاقتور دیش بھگت کے طور پر سامنے آئے جو قومی سلامتی کا واحد چوکیدار بن کر حزبِ اختلاف کو دیش دروہی کہتا نظر آیا۔ راہول گاندھی کے ’’چوکیدار چور ہے‘‘ کے نعرے کو مودی نے قومی سلامتی کے چوکیدار میں بدل کر انتخابی مباحثے کی کایا پلٹ دی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو بڑھتی بیروزگاری، کسانوں کی بُری حالت اور گزشتہ انتخابات میں ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس (ترقی)‘‘ کے نعرے پہ عمل درآمد نہ ہونے پر سخت تنقید کا سامنا تھا۔ لیکن مودی نے تمام مہم کو جنگجویانہ قوم پرستی کے بیانیے میں بدل دیا کیونکہ پلوامہ کی دہشت گردی نے اسے بہت ہی سنہری موقع فراہم کر دیا تھا جس کا اُنہوں نے خوب استعمال کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کے زبردست تنظیمی ڈھانچے، اونچی جاتیوں کے ہندوئوں کی بھرپور حمایت، کارپوریٹ کاروبار اور میڈیا نے مل کر مودی کی جیت کو یقین بنا دیا۔ انہوں نے مخالف نچلی جاتیوں کے اندرونی تضادات اور علاقائی جماعتوں کے بانجھ پن کو خوب استعمال کیا، جبکہ ان کے مدِمقابل نہرو گاندھی خاندان کے فرزند راہول گاندھی اپنی ہمشیرہ پریانکا کے ساتھ کے باوجود قدآور مبلغ مودی کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ گزشتہ انتخابات کی لہر کی طرح اس بار بھی مودی لہر ایسی چلی کہ ہر طرف مخالفین کے چھکے چھڑاتی چلی گئی۔ شمالی بھارت میں 190 سیٹوں، مشرقی بھارت میں 88 سیٹوں، مغربی بھارت میں 132 سیٹوں کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے جنوبی بھارت میں بھی خوب سرایت کر لی ہے جہاں یونائیٹڈ پراگریسو الائنس (UPA) والے بمشکل 63 نشستیں حاصل کر پائے۔ کانگریس نے جن تین ریاستوں میں حال ہی میں صوبائی انتخابات جیتے تھے، وہاں بھی بی جے پی نے اُن کا سو فیصد صفایا کر دیا۔ یہاں تک کہ مغربی بنگال میں ترانمل کانگریس کی آہنی خاتون ممتا بنرجی کے مقابلے میں بی جے پی 18 نشستیں حاصل کر گئی اور کرناٹکہ میں بھی اس نے کانگریس اور جنتا دل سیکولر کا صفایا کر دیا۔ مودی لہر میں آنے والی ریاستوں میں گجرات، مدھیا پردیش، بہار، راجستھان، چھتیس گڑھ، مہاراشٹرا، ہماچل پردیش، ہریانہ، کرناٹکہ، آسام، دہلی اور دیگر وفاقی علاقے شامل ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 300 نشستوں کا ہندسہ پار کیا تو اس کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک ایلائنس (NDA) نے 350 سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ کانگریس اپنی پچھلی نشستوں میں فقط آدھ درجن کا اضافہ کرتے ہوئے 51 نشستوں اور اس کا اتحاد یو پی اے 100 کا ہندسہ نہ کراس کر سکا۔ اگر کوئی اس لہر سے بچا بھی تو وہ تھیں تامل ناڈو، آندھرا پردیش اور کیرالہ کی ریاستیں، جو بالکل ہاتھ دھو بیٹھے، اُن میں گاندھی خاندان، آندھرا کے نائیڈو اور بیچارہ ہمارا لیفٹ فرنٹ شامل ہیں۔

اب بھاچپا نے ہندوستان کی نئی تاریخ لکھنی ہے جس کے نظریہ سے اقلیتیں باہر ہیں۔ اسی لیے مودی کو گریٹ ڈیواڈر آف انڈیا بھی کہا جا رہا ہے۔ ہندتوا کی اس زبرست کامیابی سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے انتہاپسندوں کو ایک زبردست موقع ملا ہے کہ وہ ہندوستان کو ہارڈ ہندوتوا کی جانب دھکیلے۔ اب رام مندر بنے گا، کشمیر کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی مقام اور جموں و کشمیر میں باہر کے لوگوں پر جائیداد کی خریداری کی بندش پہ حرف آئے گا۔ دُنیا بھر میں اُبھرتے طرح طرح کے پاپولسٹ، قوم پرست، نسل پسند اور نفرت انگیزی پھیلانے والے رہنمائوں کی طرح مودی بھی ایک نہایت طاقتور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں اور ایسا بھارت میں اندرا گاندھی کے بعد ہونے جا رہا ہے۔ مودی دو متضاد گھوڑوں پہ سوار ہیں۔ ایک کاروباری جدید کاری کا گھوڑا ہے، دوسرا مذہبی احیا کا قدامتی گھوڑا۔ دیکھتے ہیں کہ دونوں گھوڑوں میں سے کون مات کھاتا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی سمجھ نہیں کہ آر ایس ایس اپنے اکھنڈ بھارت کے متروک خواب کی جگہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کی اقتصادی یونین کی صورت حاصل کرنے پہ مائل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی کشمیر میں ’’انسانیت، کشمیریت، جمہوریت‘‘ کے واجپائی فارمولے پہ عمل کرتے ہیں یا پھر مسلم دشمنی میں فسطائیت کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مضبوط پوزیشن اور سخت موقف کے ساتھ بات چیت کو شاید ایک اور موقع دیں گے، لیکن پلوامہ، پٹھان کوٹ اور اری جیسے دہشت گردی کے واقعات پہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا مودی کو پیغامِ تہنیت ایک اچھا قدم ہے۔ اب جو مٹھائی شریمتی سشما سوراج ہمارے وزیرِ خارجہ کے لیے لائیں کہ وہ شیریں بیانی کی جانب مائل ہوں، یہ بھی اشارہ ہے کہ میڈیا میں جنگ بند ہو اور بات چیت کا ماحول بنایا جائے۔ دیکھیے، برصغیر کی مذہبی تقسیم کے مخالف نہرو جو کر نہیں سکتے تھے، کیا کمیونل تقسیم کے داعی مودی کر پائیں گے؟

تازہ ترین