• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی تیز تر علاقائی اور عالمی تبدیلیاں اور پاکستان کے اندر ابتری کا شکار معیشت کی وجہ سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی اس امر کی متقاضی ہیں کہ پاکستان کے حقیقی مقتدر حلقے اپنی روایتی حکمت عملی سے انحراف کا راستہ اختیار کریں کیونکہ اب وہ حالات بالکل بھی نہیں رہے ہیں کہ 72 سال والی اس روایتی حکمت عملی کے ساتھ پاکستان مزید آگے بڑھ سکے ۔ سرد جنگ کا عہد تین عشرے قبل ختم ہو چکا ہے اور اس کے بعد امریکا کے نئے عالمی ضابطے والا عہد بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کے بطن سے نیا عہد جنم لے رہا ہے ۔

اب وہ وقت نہیں رہا کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں کمزور ہوں اور پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو ۔ پاکستان ایک سیکورٹی اسٹیٹ بنا اور پاکستان کے تمام داخلی اور خارجی امور کی ذمہ داری سیکورٹی اداروں پر ڈال دی جائے ۔ سرد جنگ کے عہد اور بعد ازاں نئے عالمی ضابطہ والے عہد میں اگرچہ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں رہا ۔ نیا عہد دنیا کو کنٹرول کرنے والی عالمی طاقتوں اور ان کے حاشیہ بردار مقامی مقتدر حلقوں کے اپنے داخلی تضادات سے جنم لے رہا ہے اور اس کا ادراک دنیا میں ہر جگہ کیا جا رہا ہے ۔ روایتی سوچ اور حکمت عملی سے یہ طاقتیں دستبردار ہو رہی ہیں اور انہوں نے وہ آپشنز بھی کھلے رکھے ہوئے ہیں ، جنہیں وہ کبھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ نئی صف بندیوں میں وہ سارے مکافات پر غور کر رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں بھی اس صورت حال کا ادراک پایا جاتا ہے لیکن نئی صورت حال کو قبول کرنے کے لیے روایتی سوچ میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا ملک کی دخلی اور پاکستان کے ارد گرد جغرافیائی تزویراتی ( جیو اسٹرٹیجک ) صورت حال پر غور کرنے کے لیے اگلے روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا ، جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے شرکت کی ۔ اس اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت سے پیدا ہونے والی سیاسی بے چینی اور عید کے بعد اپوزیشن کی طرف سے سیاسی تحریک چلانے ، بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی ، امریکا اور ایران کی ممکنہ جنگ سمیت دیگر داخلی اور خارجی معاملات پر غور کیا گیا ۔ رپورٹس کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے منصوبے کی مکمل حمایت کی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا معاشی منصوبہ اپنا ہے یا نہیں ؟ تحریک انصاف کی حکومت نے 8 ماہ قبل ہارون شریف کو بورڈ آف انویسٹمنٹ کا چیئرمین مقرر کیا تھا ۔ انہوںنے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا ہے کہ پاکستان کی معیشت عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) کی ٹیم کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے ۔ اب ان کا اس عہدے پرکام کرنا فضول ہے کیونکہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ تحریک انصاف کی حکومت یونس ڈھاگا کو سیکرٹری وزارت خزانہ کے عہدے پرلائی تھی ۔ انہیں بھی وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ سے مبینہ اختلافات کی بنیاد پر ہٹایا گیا ہے ۔ قبل ازیں تحریک انصاف نے اپنے وزیر خزانہ ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو بھی ہٹایا ۔ اگر معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کا اپنا منصوبہ ہوتا تو اس پر عمل درآمد کے لیے وہ اپنی ٹیم کو نہ ہٹاتی ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں تو یہاں تک کہتی ہیں کہ جس حکومت کو تحریک انصاف کی حکومت کا نام دیا جاتا ہے ، یہ تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں ہے ۔ اپوزیشن کے اس سیاسی بیان سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی معاشی ٹیم خود اپنے ہاتھوں سے ہٹا دی ہے ، جو اس امر کی دلیل ہے کہ معاشی منصوبہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کا اپنا نہیں ہے ۔

جہاں تک دیگر داخلی اور خارجی امور کا تعلق ہے ، وہ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے ہی سویلین حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں رہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے داخلی امور سیکورٹی اداروں کے پاس چلے گئے ۔ خارجی امور بھی چونکہ سیکورٹی سے منسلک ہو گئے ، اس لیے یہ امور بھی بہت حد تک سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری بن گئے ۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں آرمی چیف کی سفارتی محاذ پر جو سرگرمی شروع ہوئی ، وہ آج تک جاری ہے ۔ اس سے پہلے بھی یہ سرگرمی تھی لیکن اب زیادہ واضح ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی سوچ زیادہ سیاسی نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی جماعت کے طور پر پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات میں اس کا کوئی '' اسٹیک '' ہے ۔ اس کا اسٹیک صرف حکومت ہے ۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں نئی سیاسی صف بندی ہو رہی ہے ۔ نئے بلاکس بن رہے ہیں ۔ چین عالمی طاقت کے طور پر اپنا نیا کردار متعین کر چکا ہے ۔ ہم نے امریکی کیمپ میں رہتے ہوئے اور اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے چین کو پیش قدمی کا موقع فراہم کیا اور سی پیک کے منصوبے میں چین اور خود کو پھنسا دیا ۔ دنیا کی اپروچ بدل گئی ہے ۔ ہم نہ صرف امریکا کو چیلنج کر چکے ہیں ۔ ایران کے ساتھ معاملات طے کرنے میں امریکا ایک بار پھر پاکستان کو امریکا کا ساتھ دینے یا نہ دینے والی پوزیشن پر لاتا ہے تو چین میں بھی یہ سوچ پیدا ہو سکتی ہے کہ ایک مشکل دوست کی حیثیت سے پاکستان کو ڈیل کرنا ہو گا ۔ ہو سکتا ہے کہ اب عالمی طاقتیں ایسے پاکستان سے معاملات طے نہ کریں ، جو سیکورٹی اسٹیٹ ہے ، جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ روایتی سوچ سے انحراف کریں ۔ پاکستان کو سیاسی طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا ہو گا ۔ اس کے لیے سیاسی قوتوں کے ساتھ از سر نو معاملات طے کرنا ہوں گے ۔ اگر وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی حکومت کے ذریعہ ہی بحران سے نکلنا ہے تو بیرونی دنیا میں کم از کم یہ تاثر دینا ضروری ہے کہ ان کے ساتھ پاکستان کی دیگر سیاسی قوتیں بھی ہیں ۔ یقینا اس طرح کی سوچ مقتدر حلقوں میں ہو گی۔

تازہ ترین