• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی ”کامیاب“ لانگ مارچ کے خلاف یار لوگوں نے یہ خبر دی کہ علامہ صاحب اور ان کے اہل و عیال عملی سیاست میں آنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ قادریہ خاندان کا اضافہ ہونے کو ہے اور دوسرے صاحبزادگان کی طرح ان کے دونوں بیٹے اور داماد بھی ”سیاسی وارث“ بننے والے ہیں لیکن شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے یہ فیصلہ کر کے ”میں، میرے بیٹے اور داماد الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے“ اڑتی چڑیا کے پَر کاٹ دیئے ہیں۔ بلاشبہ ”پاکستانی سیاست“ میں یہ ایک بڑا اور اپنی نوعیت کا اہم فیصلہ ہے کیونکہ پاکستان ہی نہیں اس خطہ کے ممالک میں ”وراثتی سیاست“ مرکز و محور رہی ہے۔ بھارت میں نہرو خاندان حکومتی سیاست میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے ۔ اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی حکومتی کانگریس پارٹی کے نائب صدر منتخب ہو گئے ہیں اور آئندہ وزیر اعظم کے مضبوط امیدوار ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم ہیں لیکن تمام تر اختیارات کانگریس کی صدر سونیا گاندھی ہی کو حاصل ہیں۔ سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ پاکستان میں جاگیرداروں، وڈیروں کا سیاست پر یکطرفہ قبضہ رہا ہے اور یہ نسل در نسل جاری ہے۔ حکمران پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کا دوسرا نام ہے۔ شہید بی بی کے صاحبزادے بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے چیئرمین، ان کے شوہر صدر زرداری شریک چیئرمین، جناب زرداری کی بہن فریال تالپور، ان کی صاحبزادیاں بختاور زداری بھٹو، آصفہ زرداری بھٹو بھی سیاست میں سرگرم ہیں جبکہ میر مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنویٰ بھٹو پیپلز پارٹی (شہید مرتضیٰ گروپ) کی صدر ہیں۔ ان کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام انتخابات میں لاڑکانہ سے امیدوار ہوں گی۔ میر شاہنواز بھٹو کی صاحبزادی سسی بھٹو کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی وطن واپس آ کر سیاست میں حصہ لینے کے لئے پَر تول رہی ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) میں میاں برادران کو بالادستی حاصل ہے۔ میاں نواز شریف پارٹی کے صدر، میاں شہباز شریف صوبہ کے وزیر اعلیٰ، داماد کیپٹن (ر) صفدر یوتھ ونگ کے صدر ہیں جبکہ مریم نواز عام انتخابات میں امیدوار ہوں گی اور بڑے صاحبزادے حسین نواز کی سیاست میں واپسی کے روشن امکانات ہیں۔ میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز بڑے ہی فعال و متحرک ہیں۔ مسلم لیگ ق کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ۔ چودھری شجاعت صدر، پرویز الٰہی ڈپٹی وزیر اعظم، چودھری شجاعت کے چھوٹے بھائی وجاہت حسین وفاقی وزیر ، پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی پنجاب اسمبلی کے رکن اور بااختیار سیاستدان ہیں جبکہ میجر طاہر صادق اور خاندان کے کئی افراد سیاست میں سرگرم ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اسفند یار ولی پارٹی کے سربراہ ہیں اور ان کے ماموں زاد بھائی امیر حیدر ہوتی صوبہ کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ سابق وزیراعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی کے چھوٹے بھائی، صاحبزادگان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ صوبہ کے گورنر مخدوم احمد محمود ان کے ماموں زاد بھائی ہیں جبکہ احمد محمود کے تینوں بیٹے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ سندھ کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارو ان کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ اس طرح دوسری جماعتوں میں بھی بھائی بیٹوں کا قبضہ ہے۔ اس ”سیاسی فضا“ میں علامہ طاہر القادری کی جانب سے یہ فیصلہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ علامہ صاحب کی واپسی بہتوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ لاہور میں ”بے مثال“ جلسہ اور لانگ مارچ اور دھرنے کے باوجود بہت سے ابھی تک لکیر پیٹ رہے ہیں اور یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ واپسی کے پیچھے کیا بھید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملکی تاریخ کا پرامن اور کامیاب لانگ مارچ کر کے وہ ”صف اول“ کے سیاسی رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ ایسا لانگ مارچ اور دھرنا جس میں ایک گملا، گاڑی کا ایک شیشہ نہیں ٹوٹا پانچ روز تک ہزاروں لاکھوں افراد شدید سردی میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے، ان میں معصوم بچے، خواتین اور بزرگ شہری بھی شامل تھے۔ علامہ صاحب کے حوالے سے بہت سی باتیں کی گئیں ، اسے ڈرامہ قرار دیا گیا، ایسے اہل قلم اور دانشور بھی تھے جن کے قلم سے کوئی ”کلمہ خیر“ نہیں لکھا گیا لیکن اس کامیاب لانگ مارچ اور دھرنے پر کسی کو بھی انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پیر کی رات سینئر صحافیوں، کالم نگاروں سے ایک نشست میں انہوں نے ”لانگ مارچ“ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی اور دعویٰ کیا کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سو فیصد کامیابی ہوئی ہے۔ ان کے تمام مطالبات تسلیم کئے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ذمہ دار اداروں“ نے حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا ۔ تاثر یہ ہے کہ ”مارشل لاء چند سیکنڈوں کے فاصلے پر تھا“ ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ”مقتدر حلقوں“ کے دباؤ پر مذاکرات ہوئے ہیں تو ان کا جواب یہ تھا کہ ”میں تو کنٹینر میں بیٹھا تھا اس میں ٹیلی ویژن کی سہولت نہیں تھی باہر کی خبروں سے لاعلم تھا، مجھے چودھری شجاعت حسین نے بتایا ہے کہ ”ذمہ دار اداروں“ کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا جبکہ حکومت اور وزارتِ داخلہ دھرنے پر آپریشن کرنا چاہتی تھی اور اس کی تیاری مکمل تھی۔ پنجاب سے 6ہزار کمانڈوز بھی منگوائے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے ٹرانسپورٹروں کو جبراً بسیں کرایہ پر دینے سے روکا۔ 25ہزار بس والوں نے ہاتھ جوڑ کر کرایہ واپس کر دیا اس طرح جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ سرکاری اہلکاروں نے راستوں کی ناکہ بندی کر کے لوگوں کو جلوس میں شامل ہونے سے روکا اس کے باوجود ”لاکھوں افراد“ اسلام آباد میں اکٹھا ہو گئے۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح کے عوام نے میزبانی کی۔ کھانا پانی مہیا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ کو باہمی مشاورت سے مسودہ قانون کی شکل دی جائے گی اور بل کی صورت پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان عوامی تحریک عام انتخابات میں حصہ لے گی اس حوالے سے مشاورت جاری ہے جبکہ علامہ صاحب نے ذاتی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ، ان کے صاحبزادے اور داماد الیکشن میں امیدوار نہیں ہوں گے۔ یہ بہت ہی خوش آئند فیصلہ ہے جس سے ملکی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور یہ موروثی سیاست کے خاتمہ کے لئے ”پہلا مثبت قدم“ ثابت ہو گا۔ اگرچہ سیاست میں حصہ لینا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن اہلیت، قابلیت، صلاحیت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ ”پدرم سلطان بود“ کا جمہوریت میں کوئی تصور موجود نہیں!!
آخر میں نو ح ناروی کا ایک شعر سب کی خدمت میں:
کہا اونٹ پر بیٹھوں کہا اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے کہا کوہان تو ہو گا
تازہ ترین