• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی جو بڑی تیزی سے دنیا کی دسویں بڑی قوت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ آج سے دس سال قبل تک گمنامی میں کھویا ہوا ایک ملک تھا اور اپنی پہچان یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے ہی سے حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا حالانکہ اس ملک کا ماضی اتنا شاندار اور محتشم ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کو اس ملک جتنی عظمت اور احتشام حاصل کرنے کا کبھی کوئی موقع ہی میسر نہیں آیا ہے۔ اس عظیم مملکت کی پہچان سلطنتِ عثمانیہ تھی جس نے تین براعظموں پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کر رکھی تھی اور یورپی ممالک کو ناکوں چنے چبوا رکھے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے منتشر ہونے کے بعد جدید جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے مردِ بیمار ترکی میں انقلابات برپا کرتے ہوئے اسے اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی لیکن بدقسمتی سے اتاترک کے بعد آنے والے رہنماؤں نے اپنے آپ کو صرف اتاترک کے نام کو استعمال کرتے ہوئے سیکولرازم کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ سیکولر حکمرانوں نے قحط الرجال سے بچنے، ملک میں مذہبی شخصیات کے منہ بند کرنے اورآئمہ مساجد اورعلماء کی کمی کو پورا کرنے کے لئے امام خطیب کے نام سے مدارس قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ مدارس دراصل عام مسلمانوں کے لئے Blessing in disguise ثابت ہوئے۔
حکومت کی نگرانی میں قائم ہونے والے ان مدرسوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان تمام مدارس کے نصاب کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور قرآن کریم کی تعلیم کسی فرقے کا امتیاز کئے بغیر اسلام کی روح کے عین مطابق دی جانے لگی اور اس طرح ملک میں فرقہ بندی کو جڑ ہی سے اکھاڑ پھینک دیا گیا۔ ملک بھر کے علماء کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں قرآنِ کریم کا آسان ترکی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے ملک کے تمام مدرسوں میں پڑھایا جانے لگا اور دیگر تمام ترجموں کو ختم کردیا گیا جس کے نتیجے میں ملک میں غیر اسلامی رسومات اور بدعات کا قلع قمع ہو گیا۔ ان مدرسوں کی سب سے اہم بات ان میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو تمام اقسام کی جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ہے اور ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کا تعلیمی معیار بھی وہی ہوتا ہے جو دیگر جدید اسکولوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ کا ہے۔ البتہ امام خطیب مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبہ کو دیگر اسکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے مقابلے میں مذہبی تعلیم کے معاملے میں برتری حاصل رہتی ہے۔ ( یہی وجہ ہے کہ موجودہ انتظامیہ کے زیادہ تر اراکین ان مدارس سے کندن بن کر نکلے ہیں) ان مدرسوں کے براہ راست حکومت کے زیرنگرانی ہونے کی وجہ سے کوئی بھی شخص ان کو اپنے مقاصد، فرقہ واریت، انتہا پسندی اور انتشار پیدا کرنے کے لئے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔
اب ذرا پاکستانی مدرسوں پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ پاکستان میں جہاں کہیں بھی مدارس موجود ہیں وہ اپنے اپنے مسلک کی تعلیم دے رہے ہیں اور حتیٰ کہ ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والے مدرسوں میں ایک دوسرے سے مختلف نصاب (چند ایک مدارس چھوڑ کرزیادہ تر مدارس نصاب ہی وضع نہیں کرتے ہیں) پڑھایا جاتا ہے۔ حکومت ان مدرسوں کے نصاب یا نظام تعلیم سے بالکل بے خبر ہوتی ہے ۔ اسی لئے ملک میں فرقہ واریت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے پھر گزشتہ دنوں منہاج القرآن کے علامہ طاہر القادری نے جس طریقے سے مدارس کے طلبہ کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ انہوں نے وفاقی دارالحکومت پہنچ کر حکومت کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ حکومت اورپارلیمینٹ تک کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات کی راہ ہموار کر دی ہے کہ آئندہ کسی بھی مدرسے کے طلبہ جب چاہیں دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے اس پر اپنی حاکمیت قائم کرسکتے ہیں۔ وہ تو ڈاکٹر طاہر القادری کے پلان میں کچھ خامیاں رہ گئیں اگر انہوں نے تھوڑا سا مزید ہوم ورک کیا ہوتا اور پلاننگ کی طرف پوری توجہ دی ہوتی تو وہ واقعی اسلام آباد پر قبضہ کر سکتے تھے۔ البتہ اب انہوں نے طالبان یا دیگر انتہا پسندوں کو ایک راہ ضرور دکھا دی ہے۔
پاکستان میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مدرسے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے علاوہ کوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے ہیں۔ اس لئے موجودہ تمام مدرسوں کو حکومت کو اپنی نگرانی اور سرپرستی میں لیتے ہوئے ان مدارس کو ترکی کی طرز پر ڈھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ عالم اسلام میں یہ اپنی طرز کے واحد مدارس ہیں جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی دی جاتی ہے اور طلبہ کو تحقیقات کرنے کے فن سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ان مدرسوں میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی حکومت پاکستان ہی کی طرف سے وضع کیا جانا چاہئے اور مختلف مدرسوں میں علماء کی کونسل کی طرف سے مرتب کردہ قرآن پاک کے واحد ترجمے کو پیش کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں فرقہ واریت کو دور کیا جاسکے اور ان مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبہ کو بھی عام پاکستانی طلبہ کے معیار پر لاتے ہوئے ان طلبہ کو بھی قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور پاکستان کے مستقبل کو سنوارا جائے۔
تازہ ترین