• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی نئی معاشی ٹیم کے سربراہ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ہفتے کو اسلام آباد میں وفاقی وزراء اور مشیروں کے ہمراہ ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں اپنی اقتصادی حکمت عملی کے اہم نکات اجاگر کئے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے حل کا ایک واضح روڈ میپ رکھتے ہیں، جس میں فوجی اور سول اخراجات میں کمی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی۔ حکومت کی معاشی کارکردگی کے بارے میں بڑے پیمانے پر پائے جانے والے منفی تاثر کے برعکس مشیر خزانہ کئی ایسے پہلو سامنے لائے جو معاشی محاذ پر مثبت پیش رفت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ حکومت نے اچھے معاشی فیصلے کر کے ملک کے گردشی قرضوں میں ماہانہ بارہ ارب روپے کی کمی کی ہے جبکہ آئندہ سال کے اختتام تک یہ قرضے مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ نئے مالی سال کے بجٹ کے بعد غریب اور متوسط طبقوں کو سہولتیں دینے کے اقدامات سمیت مزید اچھے فیصلوں کے باعث چھ سے بارہ مہینوں میں حالات میں نمایاں بہتری کی خوشخبری بھی اُنہوں نے قوم کو سنائی۔ محصولاتی آمدنی بڑھانے کے لئے پہلے سے ٹیکس دینے والوں ہی پر نئے ٹیکس لگا دینے یا عائد شدہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دینے کا آسان نسخہ ہمارے اکثر معاشی حکمت کار استعمال کرتے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آمدنی پر ٹیکس دینے والوں کی تعداد اب تک مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ یہ ایک بڑی سادہ سی حقیقت ہے کہ اس کے بجائے ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھائی جائے تو پرانے ٹیکس دہندگان کے بوجھ میں کسی اضافے کے بغیر قومی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے گا۔ یہی معاملہ بجلی اور گیس کے نرخوں کا ہے۔ ان کی چوری روکنے اورتمام صارفین سے بلوں کی وصولی یقینی بنانے کے بجائے نرخ مسلسل بڑھا کر باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں ہی پر بل نہ دینے والوں کا بوجھ بھی منتقل کئے جانے کی رسم عشروں سے چلی آرہی ہے۔ اس صورتحال کو ختم کرنے کی باتیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن کوئی عملی تبدیلی واقع نہیں ہوسکی ہے۔ تاہم ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اعداد و شمار کے ساتھ اس صورت حال کے حوالے سے یہ امید افزا اظہار خیال کیا ہے کہ جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں اُن پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے اور جو نہیں بھر رہے ہیں یا آمدن کے حساب سے کم دے رہے ہیں اُن سے ٹیکس وصول کیا جائے، اِس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت نے تازہ ترین ڈیٹا حاصل کرلیا ہے۔ اثاثے ظاہر کرنے کی جو اسکیم لائی جارہی ہے اُس سے بھی ٹیکس آمدنی میں گراں قدر اضافہ متوقع ہے۔ تیل کے نرخوں کو ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بجا طور پرمہنگائی کا ایک ایسا عامل قرار دیا جو حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تاہم کم آمدنی والے گھرانوں کو حتی الامکان مہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لئے بجلی پر سبسڈی دینے کا اعلان بھی انہوں نے کیا ہے۔ نئی معاشی حکمت عملی کے دیگر اہم نکات میں زراعت کے شعبے کی ترقی، ٹریڈنگ کے بجائے مینوفیکچرنگ کو ترجیح، پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر کا منصوبہ اور معاشی سرگرمی میں نجی شعبے کی شرکت کو بڑھانا شامل ہیں جن سے روزگار کے مواقع میں اضافہ اور معاشی بہتری یقینی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے ضمن میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ یہ قرضے نسبتاً کم شرح سود پر دستیاب ہوتے ہیں جبکہ کسی ملک کے لئے آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری کے بعد وہاں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف سے طے پانے والے حالیہ معاہدے کی تفصیلات اور شرائط کو منظر عام پر لاکر قوم کو اعتماد میں لینے کے بظاہر ایک قطعی جائز اور معقول مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی حتمی منظوری سے پہلے ان معلومات کو عام نہیں کیا جاسکتا۔ وضاحت کی جانی چاہئے کہ کیا یہ شرط عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے منافی نہیں اور کیا دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں کو بھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض خواہی کی صورت میں پارلیمنٹ سے بالا بالا ہی معاہدہ کرنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین