• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تقریباً 20سال سے بلاناغہ جنگ اخبار میں معاشی کالم لکھ رہا ہوں، جس میں ملک اور خطے کی معاشی صورتحال کا تجزیہ اور مسائل کے حل کیلئے مثبت عملی تجاویز دیتا رہا ہوں۔ ایک صنعتکار، معیشت دان اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس سے دیرینہ تعلق کی وجہ سے مجھے بزنس کمیونٹی کے مسائل سے آگاہی ہے جن کے حل کیلئے میں حکومت میں اعلیٰ سطح پر اپنی سفارشات پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ میرے مثبت رویے کی وجہ سے وزیراعظم سمیت حکومتی وزراء میری سفارشات کو اہمیت دیتے ہیں اور اہم میٹنگز میں تجاویز کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ سیاسی وابستگی سے ہٹ کر 25سال سے مختلف حکومتوں میں بزنس کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے حکومتوں کے اچھے اقدامات کو سراہا اور غلط فیصلوں پر تنقید کی ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف ملکی مفاد ہوتا ہے لیکن مجھے پہلی بار ملکی معیشت پر شدید خطرات محسوس ہورہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پہلے 9ماہ میں روپے کی قدر میں 20فیصد سے زیادہ کمی سے پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 151روپے کی نچلی ترین سطح پر آگیا ہے جو خطے میں بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، نیپال کی کرنسی سے بھی کم ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں اور PSXجو ایک وقت خطے میں سب سے اچھی کارکردگی دکھارہا تھا، آج سب سے خراب کارکردگی پیش کررہا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ وہ گزشتہ حکومت کی طرح روپے کی قدر برقرار رکھنے میں مداخلت نہیں کریگی اور معاہدے کے مطابق پاکستانی روپے کی قدر فری فلوٹ مارکیٹ میکنزم کے حساب سے ہوگی۔

قرضوں کی ادائیگیوں، تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہورہے ہیں جس کی وجہ سے روپے پر شدید دبائو ہے۔ ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے گزشتہ ایک سال میں روپے کی قدر میں تقریباً 35فیصد ڈی ویلیو ایشن کرنے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ روپے کی اتنی زیادہ ڈی ویلیو ایشن سے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتیں، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ 151روپے کا ڈالر جو مستقبل میں مزید بڑھ سکتا ہے اور 15فیصد بینکوں کے شرح سود پر کوئی نئی صنعت نہیں لگائی جا سکتی جس کی وجہ سے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع بند ہوجائینگے جو بیروزگاری اور غربت میں اضافے کا سبب بنے گا ۔ آئی ایم ایف پیکیج کے تحت حکومت کو آنے والے بجٹ میں 650ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانا ہونگے۔ اسکے علاوہ آنے والے دو سالوں میں 700ارب روپے کی ٹیکس مراعات 350ارب روپے سالانہ کے حساب سے ختم کرنا ہوں گی۔ حکومت کو اس وقت 350ارب روپے کی ریونیو وصولی کی کمی کا سامنا ہے جس سے اس سال بجٹ خسارہ 7فیصد متوقع ہے جس میں کمی لانے کیلئے 1400ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کیلئے سبسڈیز ختم کرنا ہونگی۔ ان اقدامات سے پیداواری لاگت بڑھنے کا بوجھ بزنس کمیونٹی پر پڑے گا جو موجودہ حالات میں کنفیوژن کا شکار ہے اور حکومت کے معاشی بحالی کے اقدامات پر اُن کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں فیڈریشن نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے ہنگامی بنیاد پر ایک اہم میٹنگ کی جس کا انعقاد گورنر سندھ عمران اسماعیل نے گورنر ہائوس میں کیا تھا۔ فیڈریشن، کراچی چیمبرز، اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج کے اعلیٰ سطحی نمائندوں نے میٹنگ میں حصہ لیا جس میں فیڈریشن کی جانب سے میرے علاوہ ایس ایم منیر، زبیر طفیل، عبدالسمیع خان اور مظہر ناصر نے شرکت کی۔ فیڈریشن کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے مشیر خزانہ سے کہا کہ عالمی اداروں کی پیش گوئیوں اور آئی ایم ایف سے کئے جانے والے معاہدے کی رو سے آنیوالے سالوں میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ میں متوقع 2فیصد کمی سے معاشی سرگرمیاں مزید سکڑ جائیں گی اور 6لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہوجائیں گے لہٰذا حکومت کو جی ڈی پی گروتھ برقرار رکھنے کیلئے آنے والے بجٹ میں مراعات دینا ہوں گی۔ میں نے انہیں بتایا کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ صرف ڈی ویلیو ایشن سے ایکسپورٹ نہیں بڑھتی کیونکہ آرڈر لینے کیلئے اس کا فائدہ عموماً خریدار کو منتقل کردیا جاتا ہے۔ ایس ایم منیر نے مشیر خزانہ سے مطالبہ کیا کہ ایکسپورٹرز کے گزشتہ کئی سالوں سے ادا نہ کئے جانے والے 350ارب روپے کے ریفنڈز کی فوری ادائیگی کی جائے۔

اجلاس کے دوران عارف حبیب، عقیل کریم ڈھیڈی، بہرام آواری، سراج تیلی، زبیر موتی والا، عبدالسمیع خان، محسن شیخانی اور حسن بخشی نے اپنے سیکٹرز کی مشکلات سے آگاہ کیا۔ زیادہ تر بزنس مینوں نے ڈالر کی بے لگام پرواز اور روپے کی گرتی ہوئی قدر پر تشویش کا اظہار کیا۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے یقین دلایا کہ ان کی حکومت اصلاحات سے معاشی بحران پر قابو پالے گی۔ شبر زیدی نے بزنس کمیونٹی کو نئی ایمنسٹی اسکیم کو بے نامی اثاثے سفید کرانے کا آخری موقع قرار دیا جبکہ فیڈریشن نے بھی نئی ایمنسٹی اسکیم کو گزشتہ ایمنسٹی اسکیم سے بہتر قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے کیش بینک میں جمع کرانا، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے ٹیکس فائلر بننا، غیر ملکی اثاثے ملک میں نہ لانے کی صورت میں دو فیصد اضافی ٹیکس جمع کرانا، سیلز ٹیکس کے متنازع امور 2فیصد ٹیکس سے باقاعدہ بنانا، نئی ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کو اپنی نظرثانی بیلنس شیٹ اور انکم ٹیکس ریٹرن دوبارہ جمع کرنے کی اجازت اور پراپرٹی کو ایف بی آر کی ڈیڑھ گنا قیمت پر صرف 1.5فیصد ٹیکس ادائیگی پر کلیئر کرنا وہ خصوصیات ہیں جو نئی ایمنسٹی اسکیم کو گزشتہ ایمنسٹی اسکیم سے زیادہ عملی اور موثر بناتی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں وزیراعظم سے کراچی میں ایک میٹنگ میں اہم گفتگو رہی جو میں ان شاءاللہ اپنے آئندہ کالم میں قارئین سے شیئر کروں گا۔

تازہ ترین