• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ جو غالب نے کہا تھا:
قطرہ میں دجلہ دکھائی دے اور جز میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہٴ بینا نہ ہوا
”دیدہٴ بیناa“ جس کو عطا ہوجائے اس کے لئے دشواریاں ہی دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیں، زندگی کے ہر موڑ پر دیدہٴ بینا جراحتوں کے سامان فراہم کرتا رہتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ زیست کی تہہ در تہہ معنویت کی تلاش بہت مہنگا سودا ثابت ہوتی ہے ہر عہد میں وہ لوگ جن کو یہ نعمت عطا ہوتی ہے، صلیب و دار کی منزلوں سے گزرتے رہتے ہیں ان کے پیرایہٴ اظہار میں وہ تیکھا پن ہوتا ہے کہ اسے ملمع سازوں، دنیا پرستوں اور جاہ پرستوں کی ظاہر داری برداشت ہی نہیں ہوسکتی۔ فیض احمد فیض کے بعد نظم اور غزل میں اس ”دیدہٴ بینا“ کی نمائندگی پوری ذمہ داری کے ساتھ اگر کسی شاعر نے کی ہے تو وہ بلاشبہ احمد فراز ہی ہے۔ فراز ہمارے عہد کا وہ ماہتاب تھا جس پر اجل کے کالے بادل آجانے کی وجہ سے جہانِ غزل ایک دم تاریک ہوگیا ہے۔ پورے 65 سالہ عہد پر اس کی بھرپور گرفت رہی۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مخدوم محی الدین نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ شاعر کو غزل عمر کے کم سے کم چالیس سال پورے کرکے شروع کرنی چاہئے۔ مخدوم نے اشاروں میں صنف غزل کے لئے بہت اہم بات کہہ دی اس میں وہ شاعر کی مشاقی ٴ فن اور زیست کے تجربوں کی کشادگی پر اصرار کرتا ہے۔ غزل خیال بھی ہے اور آتش کے لفظوں میں مرقع سازی کا کمال بھی اور یہ کمال فراز نے 18 سال کی عمر میں کر دکھایا اور مقبولیت کے جس گراف تک اس کا نام روشن رہا وہ اس کے عہد میں بہتوں کو نصیب نہ ہوا۔ اس پر ہمعصروں نے طرح طرح کے طنز کئے، لیکن اسے فیض کی طرح ہمیشہ ثابت قدمی سے اپنی متعینہ ڈگر پر چلتے رہنے کا جنون رہا۔ اقبا ل اور فیض کے بعد اور بھی کئی نام ہیں لیکن فراز کو جو عزت، دولت، شہرت، عظمت اور مقبولیت ملی اس کی دوسری مثال نہیں، وہ صرف عام آدمی کے دکھ درد کا غزل کار نہ تھا بلکہ خواص میں بھی جی بھر کر پڑھا جاتا تھا۔
آج جب نازش بزم سخن و ساز جاناں کی یادوں کو سمیٹنے اور کاغذ پر منتقل کرنے بیٹھا ہوں تو اس کی خوش گفتار، خوش لباس اور خوش مذاق شخصیت میرے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ اس سے کئی کئی برس گزر جاتے تھے اور ملاقات نہیں ہوتی تھی مگر جب وہ ملتا تھا تو بہت ٹوٹ کر ملتا تھا۔ ہم سب کو الوداع کہنے سے دو ایک ماہ قبل میری اس سے دہلی میں ملاقات ہوئی اس کے بعد جتنے دن وہ دہلی میں رہا ہم ہر روز ملتے رہے، خصوصاً رات کا ملنا تو بے حد ضروری ٹھہرا۔ ایسی شامیں شاید میری زندگی میں پھر نہ آسکیں۔ میں نے دیکھا وہ سب سے دوستیاں پالتا تھا حالانکہ اس میں اور اس پر مرنے کے بعد کالم لکھنے والوں میں ایسے بھی ہیں جن میں نفاق کی وہ تمام علامتیں پائی جاتی ہیں جو الہامی کتابوں میں بتائی گئی ہیں۔ چڑھتے سورج کے پوجاری، موقع پرستوں اور منافقوں سے بھی اس کے تعلقات رہے لیکن ان کے پسینے کے چھینٹے اپنے بے داغ لباس پر نہ پڑنے دیئے۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک رات ایمسٹرڈیم میں میرے گھر پر ابھی ہم نے گلاسوں کو ہاتھ ہی لگایا تھا کہ وہ موڈ میں آگیا۔ کہنے لگا: ”ایک بات بتاوٴ، میری کون سی بات تمہیں اچھی نہیں لگتی؟“ میں نے کہا: ”موقع پرستوں اور مقصد حاصل کرنے کے لئے چاپلوسی اور خوشامد کرنے والوں کی پذیرائی، آپ کے حلقے میں ایسے بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں“۔ یہ سن کر اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا مگر چپ رہا۔
ہنوز زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے، غالب نے موت کو ابنِ آدم کی میراث کہا ہے۔ فراز کو بھی یہ میراث حاصل ہوئی لیکن نظریئے اور عقیدے اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں صرف مانا جائے جبکہ ادب کا مطالعہ کرنے کے لئے اسے جاننا، سمجھنا اور محسوس کرنا بنیادی تقاضے ہیں۔ منزلِ ادب سلیقے کی منزل ہے، ہم نے جو دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا اسے کتنی کامیابی کے ساتھ دنیا تک پہنچایا ہے؟ فراز نے یہی فعل کر دکھایا ہے وہ زندہ تھا تو بھی زندہ تھا، کومے میں تھا جب بھی زندہ تھا اور اب وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے تو بھی زندہ ہے۔ فراز کی شاعری اور زندگی لازم و ملزوم ہے اس کا ادب انسان کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے۔ شاعری و ادب زندگی کا آئینہ ہے اگر زندگی کی تمام تر اچھائیوں، برائیوں، تہذیبی و معاشرتی و سیاسی کشاکش اور ہم آہنگی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے تو اسے صرف ادب و شاعری کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ سو یہی فراز کی شاعری نے کیا۔ آج دل سے ایک ہی آواز آرہی ہے کہ وہ ایک مثالی شخص اور زمانہ ساز شاعر تھا وہ نہ صرف یاد آتا رہے گا بلکہ فیض کے ساتھ رہ رہ کر یہ کہنے پر مجبور کرتا رہے گا:
”جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گنہگار چلے گئے“
تازہ ترین