• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی خواب میں بھی نیوز اینکر بننے کا نہیں سوچا تھا

بات چیت : شفق رفیع

عکّاسی: اسرائیل انصاری

چاند چہرہ، غزالی آنکھیں،مترنم آواز، متاثر کن لب و لہجہ۔کہیں آپ کو گمان تو نہیں ہوا کہ ہم کسی افسانے، فلم کی ہیروئن کی بات کر رہے ہیں۔ تو بھئی ہماری آج کل کی ’’نیوز اینکرز‘‘ کسی ہیروئن سے کم ہیں کیا۔ جی ہاں، یہ ذکرِ خیر ہے، پاکستان کے صفِ اوّل کے نیوز چینل ’’جیو نیوز‘‘ کی نیوز اینکر ، نیلم یوسف کا، جنہوں نے2011ء میں ایک مقامی چینل سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اورپھر 2018ء میں جیو نیوز سے وابستہ ہوگئیں۔ نیلم رواں سال ہی شادی کے بندھن میں بندھی ہیں۔ گوکہ’’ جیو‘‘ سے وابستہ ہوئے انہیں ایک ہی سال ہوا ہے۔ تاہم ، اپنے مخصوص اندازِ بیاں، خوش مزاجی اوردھیمی مُسکان کی بہ دولت وہ کئی ناظرین کے دل موہ چُکی ہیں۔ وہ میڈیا میں کیسے آئیں،کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،شادی کیسے ہوئی، رمضان میں کیا کرتی ہیں اور عید کہاں منائیں گی … یہ اور ان جیسے کئی سوالات کے جواب جاننے کے لیے آج ہم سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی، اَن کہی‘‘ میں آپ کی ملاقات نیلم یوسف سے کروارہے ہیں۔

کبھی خواب میں بھی نیوز اینکر بننے کا نہیں سوچا تھا
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: خاندان،ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق پنجاب کے ضلعے ویہاڑی سے ہے۔ والد ٹیکسٹائل انجینئر اور والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں، جن میں میرا نمبر تیسرا ہے، دو بہنیں مجھ سے بڑی اور دو بھائی چھوٹے ہیں۔ہم سب بہن بھائی مختلف شعبوں سے وابستہ اور اپنی اپنی فیلڈز میں کام یاب زندگی گزار رہےہیں۔ میں نے نیشنل ماڈل اسکول ، شیخوپورہ سے میٹرک اور نیشنل ماڈل ہائی اسکول، شیخوپورہ سے انٹر کیا، بعد ازاں ہم لوگ لاہور منتقل ہوگئے۔مَیں الیکٹریکل انجینئر بننا چاہتی تھی، لیکن نمبرز اتنے زیادہ نہیں تھے کہ یونی وَر سٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ، لاہور کے شعبۂ الیکٹریکل انجینئرنگ میں داخلہ ہوپاتا۔ وہاں مجھےپراڈکٹ اینڈ انڈسٹریل ڈیزائننگ میں داخلہ مل رہا تھا، لیکن اُس شعبے میں میری دل چسپی نہیں تھی۔ یو ای ٹی کے ساتھ مَیں نے پنجاب یونی وَرسٹی میں بھی اپلائی کیا ہوا تھا، جہاں شعبۂ ابلاغِ عامہ اور بزنس ایڈ منسٹریشن (بی بی اے)دونوں میں میرا نام آگیا۔ پھرشعبے کے انتخاب کے حوالے سے مَیں نے ابّو، بڑی بہنوں اور کچھ ٹیچرز سے مشورہ کیا، تو سب نے ایک ہی بات کہی کہ یہ میڈیا کا دَور ہے، اگر اس شعبے کو اپناؤ گی ، تو مستقبل روشن ہی ہوگا۔ یوں مَیں نے شعبۂ ابلاغِ عامہ میں داخلہ لے کر 2012ء میں آنرز کی سند حاصل کی۔

س: بچپن میں کیسی طالبہ تھیں،پڑھاکو یا…؟

ج: میرا شمار اچھے طلبہ میں ہوتا تھا۔ ہمیشہ اچھے نمبرزہی سے پاس ہوتی ۔ ایسا نہیں تھا کہ امتحان سےایک رات پہلے تیّاری کرتی بلکہ میری یہی کوشش ہوتی تھی کہ ہر مضمون میںاے گریڈ آئے۔ مَیں نے پڑھائی کے حوالے سے والدین کو کبھی تنگ نہیں کیا۔ سُلجھی ہوئی، اپنے کام سے کام رکھنے والی بچّی تھی۔

س: فیملی میں آپ کے علاوہ بھی کوئی میڈیا سے وابستہ ہے؟

ج: نہیں! میرے والدین نے کبھی ہم بہن بھائیوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کی کوشش نہیں کی، ابّونے ہمیں شعبے کے انتخاب کےحوالے سے بھرپور آزادی دی ۔ وہ ہمیشہ ہی سے یہ چاہتے تھے کہ اُن کے تمام بچّےاعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور مختلف شعبوں میں جائیںاور خُوب نام کمائیں۔ ہم بہن بھائیوں نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا۔ میری سب سے بڑی بہن کو آرٹس کے شعبے میں دل چسپی تھی،توانہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس(این سی اے)سے آر کیٹیکچر کی تعلیم لی، اُن سے چھوٹی بہن کو میڈیکل کے شعبے سے لگاؤ تھا، تو انہوں نے ڈی فار میسی کی سند حاصل کی ، جب کہ دونوں چھوٹے بھائی کمپیوٹر انجینئر ز ہیں۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج: مَیں گڑیوں سے کھیلنے والی بچّی نہیں تھی۔جب کبھی فرصت ملے اور ماضی کے جھروکوں میں جھانکوں، تو چُلبلی، شریر یا کھیلتی کُودتی ’’نیلم‘‘ نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے مجھے احساسِ ذمّے داری عطا کردی تھی۔ اسکول کے کام سے فارغ ہو کر جب دیگر بچّے کھیل کود میں لگ جاتے ، تو میری کوشش ہوتی کہ مَیں امّی کا ہاتھ بٹا ؤں، کبھی باورچی خانے میں اُن کی مدد کر وادیتی تھی، تو کبھی چھوٹے بھائیوں کو سنبھالنے میں۔ البتہ، اپنی ہم عُمردیگر بچّیوں کی طرح مجھے بھی بچپن میں ٹیچر بننے کا بہت شوق تھا، سونے پہ سہاگا ،دو چھوٹے بھائی بھی تھے، تو انہیں زبر دستی بٹھا کر پڑھاتی اور اُن پرخُوب رعب جماتی ۔حالاں کہ اب مَیں بڑی ہو چُکی ہوں، ملازمت بھی کرتی ہوں، لیکن میرا مزاج نہیں بدلا۔ جب لاہور جاتی ہوں، تو امّی کا ہاتھ بٹاتی ہوں، ان کے ساتھ کھانا پکاتی ہوں، برتن دھوتی ہوں، امّاں کے پیر دباتی ہوںاور اُن کی الماری بھی ٹھیک کرکے آجاتی ہوں۔

س: ماں، بیٹی کی سب سےاچھی سہیلی ہوتی ہے، مگر ابّا اور بیٹیوں کا رشتہ بھی ان مول ہوتا ہے۔ آپ کا اپنے والد سے کیسا تعلق ہے؟

ج: میرے ابّا بہت اصول پسند اور سخت مزاج ہیں۔ ہمارے ہر کام ، پڑھائی، گریڈز وغیرہ پر ان کی گہری نظر ہوتی تھی، یہاں تک کہ ہم اپنا جیب خرچ کہاں خرچ کر رہے ہیں، ہمارے دوست کون ہیں ،اُن سب کے بارے میں بھی وہ مکمّل معلومات رکھتے ۔ اس لیے ابّا سے ڈر بھی لگتا تھااور کچھ شیئر کرنے کی ہمّت بھی نہیں ہوتی تھی۔جب بھی کوئی چیز چاہیے ہوتی تو امّاں سے کہتے کہ وہ ابّا سے سفارش کردیں ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ابّا کے رویّے میں بہت نرمی آگئی ہے اوراب میری ان کے ساتھ گہری بانڈنگ ہوگئی ہے۔ ویسے سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ابّا کی سختی میںہماری ہی بھلائی پوشیدہ تھی ، اگر وہ بچپن میں ہم پر سختی نہیں کرتے ، تو شاید ہم بہن بھائی آج اپنے شعبوں میں کام یاب نہ ہوتے۔

س: آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟

ج: ہماری صبح ،شام تو شفٹ کے مطابق ہی ہوتی ہے، لیکن شادی کے بعد زندگی میں ٹھہراؤ اور بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اب میری کوشش ہوتی ہے کہ مَیں صبح سویرے اُٹھوں۔ اپنے شوہر کے لیے ناشتا بناؤں، ہم دونوں ایک ساتھ کچھ وقت گزاریں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ چاہے کوئی سلیبریٹی ہو یا عام لڑکی، شادی کے بعد خود کو تھوڑا بہت بدلنا ہی پڑتا ہے۔ جیسے پہلے مَیں شفٹ سے ایک گھنٹے پہلے اُٹھتی تھی، نہائی، ناشتا کیا اور جاب پر روانہ ہوگئی، پھردوستوں کے ساتھ کہیں باہر چلی گئی یا رات گئے سوتی تھی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ میری حتی الامکان یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے شوہر کے ساتھ گزاروں، مجھے ان کی ہر چھوٹی ،بڑی ضرورت کا خیا ل رکھنا اچھا لگتا ہے اور شاید یہی شادی شُدہ زندگی کاحُسن بھی ہے۔

س: فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج: (لمبی آہ بھرتے اور مسکراتے ہوئے)میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مجھ سے فارغ نہیں بیٹھا جاتا، کبھی الماری ٹھیک کرنے لگتی ہوں، کبھی باور چی خانے کی صفائی شروع کر دیتی ہوں، تو کبھی اپنی جیولری ترتیب دینے لگتی ہوں۔ ان سب کاموں سے فارغ ہوجاؤں تو کتابیں پڑھتی ہوں، فلمیں دیکھنے کی دل دادہ ہوں، توکبھی فلمیں دیکھتی ہوں۔

س: پسندیدہ کتب کون سی ہیں؟

ج: تُرک مصنّفہ ایلِف شفق کی ’’فورٹی رُولز آف لَو‘‘اور اشفاق احمد صاحب کی ’’زاویہ‘‘ میری پسندیدہ ترین کتب ہیں۔ علاوہ ازیں، قاسم علی شاہ کو بھی شوق سے پڑھتی ہوں ۔ مجھے روحانیت پر مبنی تحریریں پڑھنے میں مزا آتا ہے۔

س: نیوز اینکرنگ کی طرف کیسے آئیں؟

ج: (قہقہہ لگاتے ہوئے)مَیں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ’’آن اسکرین‘‘ جاب کروں گی، نیوز اینکرنگ کی طرف تو مَیں حادثاتی طور پر آئی ہوں۔ آنرز کے فائنل ایئر میں پبلک ریلیشنز (پی آر) اینڈ ایڈ ورٹائزنگ میرے میجر مضامین تھے، یعنی مَیں ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں جانا چاہتی تھی، لیکن قسمت کا لکھا کوئی نہیں بدل سکتا۔ جن دنوں مَیں آنرز کر رہی تھی، تو مَیں نے لاہور کے ایک مقامی چینل میں انٹرن شِپ کی ، وہاں میرے سینئرز نے کہا کہ آپ کا لب و لہجہ بہت اچھا ہے اور خود اعتماد بھی ہیں، تو آپ کو ایک بار نیوز اینکرنگ میں قسمت ضرور آزمانی چاہیے، کچھ دن کام کرکے دیکھیں، اگر دل چسپی پیدا ہوجائے، تو اسی شعبے میں کیریئر بنالیں۔ پھروہاں مَیں نے پرومپٹر(وہ اسکرین جس پر خبریں لکھی ہوتی ہیں)پر خبریں پڑھنے کی مشق شروع کی، یہ میرے لیے نیا اور انتہائی دل چسپ تجربہ تھا، پرومپٹر پہ مشق کا سلسلہ ایک مہینے تک جاری رہا۔ ایک مہینے بعد جب پہلی بار مجھے آن ایئر جانے کا موقع ملا ، تو بہت ڈری ہوئی تھی۔ ظاہر ہے، جب ہم پہلی مرتبہ کوئی کام کرتے ہیں،تو ایک جھجک اور خوف تو ہوتا ہی ہے۔ ویسے ایک سچّی بات بتاؤں کیمرے کے سامنے بولنا آسان نہیں۔ اچھے اچھّوں کی بولتی بند ہو جاتی ، پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ بہر حال، جب مجھے بتایا گیا کہ اب بس بلیٹن کا آغاز ہونے والا ہے، تو خوف کے مارے میرا رنگ سُرخ پڑ گیا ، مگر الحمدُ للہ میں نے بہت خود اعتمای سے کوئی غلطی کیے بغیر پورا بلیٹن مکمل کیا۔

س: زندگی کی پہلی کمائی کب اور کتنی تھی؟

ج: زندگی کی پہلی کمائی 2011ء میں ملی اور وہ 25,000ہزار روپے تھی۔جب مجھے میری پہلی کمائی ملی، تو مَیں نے سب سے پہلے وہ پیسے امّاں کے ہاتھ پہ رکھے، اُس کے بعد بہن بھائیوں کو ٹریٹ دی، اپنے اورگھر والوں کے لیے شاپنگ کی، بس اسی طرح پورے پیسے مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے ۔

س: فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: اس بات میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ نہ صرف میڈیا بلکہ ہر شعبے میں مشکلات ، پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فارغ التّحصیل ہونے کے بعد جب ہم عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، تو دماغ اور ذہنیت بالکل بچّوں والی ہی ہوتی ہے، اس لیے ایڈجسٹ ہونے میں کچھ پریشانیاں تو ضرور ہوتی ہیں، مگر کام یاب وہی ہوتے ہیں ، جو مستقل مزاجی سے اپنے مقصد کی طرف قدم بڑھاتے رہیں۔ہمارے یہاں لوگ چاہتے ہیں کہ آپ سیکھے سکھائے آئیں، زیادہ تر لوگ کام سکھانے یا گائیڈ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔علاوہ ازیں، آپ لاکھ اچھا کام کرلیں، کسی کے منہ سےتعریف کےدو بول بھی ادا نہیں ہوتے، لیکن جہاںایک غلطی ہوجائے، تو بس پوری پروفیشنل لائف اُسی کا طعنہ دیا جاتا رہتاہے۔ حالاں کہ غور کریں تو کسی کی تعریف کرنا صرف اعلیٰ ظرف افراد ہی کا کام ہے، اس سےانسان کی شخصیت اور مثبت سوچ کی عکّاسی ہوتی ہے۔مگر افسوس ہمارے معاشرے میں منفی سوچ اس حد تک سرایت کر چُکی ہے کہ ہماری نظریں صرف دوسروں کی غلطیوں پر ہوتی ہیں۔لوگوں کو اندازہ ہی نہیںکہ محض ایک تعریفی جملہ انسان کی شخصیت پر کتنا مثبت اثر ڈالتا ہے۔ مجھے تو اگرکوئی ساتھی اینکر یا کوئی فین ذرا بھی سراہتا ہے، تو آپ یقین کریں، اُس کے فقط ایک جملے کے سہارے میرے چھے مہینے خوشی خوشی گزر جاتے ہیں۔

س: کراچی میں کیریئر کا آغاز ایک بڑے نجی چینل سے کیا اور کئی برس وہیں کام کیا، تو اچانک دوسرے چینل جانے کا خیال کیوں آیا؟

ج: جیسے ٹھہرا ہوا پانی گندا ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک ہی جگہ پر طویل عرصے تک کام کرنے سے انسان کی صلاحیتیں ماند پڑنے لگتی ہیں۔ بلا شبہ مَیں نے ایک طویل عرصے پاکستان کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس میں ملازمت کی اور مجھے پہچان بھی وہیں سے ملی ، مگر مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ کیریئر میں آگے بڑھنے کے لیے اب مجھے تبدیلی کی ضرورت ہے، اس لیے مَیں نے اس چینل کو خیر باد کہہ دیا اور آج مَیں پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کا حصّہ ہوں اور بہت خوش بھی ہوں۔

س: جب والدین کو بتایا کہ نوکری کے سلسلے میں لاہور سے باہر جانا پڑے گا، تو ان کا ردّ ِ عمل کیا تھا؟

ج: والد کو منانا ایک جنگ ہی تھی،کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مَیں ان سے دُور جاؤں بالخصوص کراچی، کیوں کہ جن دنوں مَیں کراچی آرہی تھی، اُس وقت یہاں کے حالات ٹھیک نہیں رہتے تھے۔ اب تو الحمدُ للہ ، یہ شہر امن کا گہوارہ بن چُکا ہے ، مگر اُس وقت کےحالات کے پیشِ نظر میرے والد مجھے کراچی بھیجنے پر آمادہ نہیں تھےاور مَیں نے انہیں بہت مشکل سے منایا تھا۔

س: ’’جیو‘‘ میں بہترین دوست کون ہے؟ نیز،کسے اپنا استاد تصوّر کرتی ہیں؟

ج: مَیں 2018ء سے ’’جیو‘‘ سے وابستہ ہوں اور اس چینل کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی بہت پروفیشنل اور اپنے کام میں ماہر ہے۔جب مَیں یہاں آئی تو سب نے کھلے دل سے استقبال کیا۔ ویسے تو تمام ساتھی اینکرز کے ساتھ عزّت و احترام کا رشتہ ہے، لیکن حفظہ چوہدری، ذوہیب اور مبشّر میرے بہت اچھے دوست ہیں۔

کبھی خواب میں بھی نیوز اینکر بننے کا نہیں سوچا تھا
شادی کے موقعے پر، اہلِ خانہ کے ساتھ

س: فیلڈکی وجہ سے ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟

ج: بعض اوقات ذاتی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے، لیکن سب سے زیادہ ہمارا ذہنی سکون متاثر ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر آپ حسّاس طبع ہیں، تو آپ کے لیےمشکلات بڑھ جاتی ہیں، کیوں کہ ہمیں ایسی دل سوز خبریں بھی بار بار پڑھنی ہوتی ہیں ، جنہیں سُن کر عام آدمی کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کچھ خبریں تو ایسی بھی ہوتی ہیں، جنہیں پڑھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے، لیکن ہمیں اپنے جذبات قابو میں رکھ کر مسلسل کئی گھنٹوں تک اُنہی واقعات کو دُہرانا پڑتا ہے۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے یہاں اچھی خبروں کو زیادہ کوریج کیوں نہیں دی جاتی۔ اور یہ پورے میڈیا کا المیہ ہے۔ ہمارے مُلک میں بہت سے اچھے کام بھی ہو رہے ہیں۔ مشرقی ثقافت کی سب سے اہم بات ہی یہی ہے کہ یہاں سب لوگ ایک دوسرے کےدُکھ سُکھ میں شریک ہوتے ہیں،مگر منظر کشی ایسی کی جاتی ہے کہ ہم سے بد تر پوری دنیا میں کوئی نہیں۔

س: ذہنی سکون بحال کرنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج: مجھے صوفیانہ موسیقی اور شاعری سے بہت لگاؤ ہے۔ لہٰذا خود کو پُر سکون رکھنے کے لیے موسیقی سنتی ہوں، ساتھ شاعری کی کوئی کتاب پڑھ لیتی ہوں۔ اُس کے علاوہ نماز پڑھتی ہوںکہ جب تک اللہ تعالیٰ سے آپ کا رشتہ مضبوط نہیں ہو،تب تک زندگی میں سکون نہیں آسکتا۔

س: کسی بھی فیلڈ میں مقام بنانے کے لیے کیا چیز سب سے زیادہ ضروری ہے؟

ج: مستقل مزاجی اورصبر و تحمّل۔ مَیں قارئین سے بھی یہ کہنا چاہوں گی کہ آپ چاہے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، جب تک مستقل مزاج نہیں ہوں گے، تب تک کام یابی کبھی آپ کے قدم نہیں چومے گی۔

س: زندگی کا یاد گار لمحہ؟

ج: ویسے تو کئی لمحات یاد گار ہیں، مگر ہر وہ لمحہ یادگار اوراُس کی خوشی ناقابلِ بیان ہوتی ہے، جب میرے ابّو کہتے ہیں کہ’’مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘ مَیں جب بھی اپنے والدین کو اپنی وجہ سے پُر سکون اور خوش دیکھتی ہوں ، تو مجھے ایک روحانی تسکین ملتی ہے، لگتا ہے جیسے میں اسی لمحے کے لیے جیتی ہوں۔ دوسرا لمحہ وہ ہے، جب مَیں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی، وہ احساس ، نکاح کا لمحہ کبھی میرے ذہن سے اوجھل نہیں ہوتا۔

س: ’’لَو میرج‘‘ کی ہے یا’’ارینجڈ؟‘‘

ج: ’’ارینج کم لَو میرج ‘‘ ۔ اپریل 2018 ء میں میرا نکاح ہوا تھا اور فروری 2019ء میں رخصتی۔ اس دَوران میرے اور اسد(نیلم کے شوہر)کے درمیان ایک بہت ہی خُوب صُورت رشتہ قائم ہوگیا، ہمیں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے میں مدد ملی، ایک دوسرے کی پسند، نا پسند، مزاج کو بہت اچھی طرح جان سکے۔ اب مَیں اور اسد ایک دوسرے کے بہترین دوست بن چُکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ دوستی کسی بھی رشتے بالخصوص میاں بیوی کے رشتے کو مزید پختہ اور خُوب صُورت بنا تی ہے۔

س: آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں ، ان کا تعلق کہاں سے ہے؟

ج: اسد کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ میکینیکل انجینئر ہیں ۔گزشتہ کئی برس سےکراچی ہی میں مقیم ہیں اور ایک نجی فوڈز کمپنی میں ملازمت کررہے ہیں، نیز کلفٹن پر اُن کا ایک چائے کا ڈھابہ بھی ہے، جہاں ہم اکثر شام میں چائے پینے جاتے ہیں۔

س: سُسرال میں کتنے افراد ہیں؟ساس نندوں کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟

ج: سُسرال میں بس ساس اور ایک شادی شدہ نند ہیں، جو انگلینڈ میں مقیم ہیں،سُسر کاانتقال ہو چُکا ہے۔ ساس ویسے تو پنجاب میں رہتی ہیں، مگر ہمارے پاس بھی آتی جاتی رہتی ہیں۔

کبھی خواب میں بھی نیوز اینکر بننے کا نہیں سوچا تھا
شریکِ زندگی، رفیقِ سفر، شوہر کے ساتھ

س: ’’سلیبریٹی بہو‘‘ کو سُسرال میں ایکسٹرا توجّہ یا دُلار ملتا ہے یا روایتی بہوؤں والا ہی سلوک کیا جاتا ہے؟

ج: میری ساس مجھے ویسے ہی بہت پیار کرتی ہیں، روایتی ساس، بہو والی کوئی بات نہیں ہوتی اور سلیبریٹی ہونے کا احساس مجھےسُسرال میں توکیا ، کبھی عام زندگی میں بھی نہیں ہوا، کیوں کہ مَیں خود کو سلیبریٹی سمجھتی ہی نہیں ہوں۔ بے شک میری نظر آسمان پر ہے، مگر پاؤں زمین پر رکھتی ہوں، ہواؤں میں اُڑنے کی کوشش نہیں کرتی۔

س: یقیناً بہت سے لوگ آپ کو میسجزکرتے ہوں گے، اب تک کا سب سے مزاحیہ یا عجیب میسج/ کمنٹ کیا تھا؟

ج: دل چسپ تو نہیں ،البتہ دل خراش ضرور کہہ سکتے ہیں۔ جب میری نکاح کی تصاویر سوشل میڈیا پروائرل ہوئیں، تو جہاں مبارک بادی اور نیک تمناؤں کے پیغامات موصول ہوئے، وہیںکچھ افراد نے میرے شوہرکی شخصیت پر تنقید بھی کی، جو مجھے بے حد ناگوا ر گزری۔ نہ جانے کیوں ہمارامعاشرہ ظاہری خُوب صورتی پر قربان ہوا جاتا ہےاور باطنی حُسن پہ دھیان نہیں دیتا۔ جو لوگ اسد کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ وہ کتنے نفیس ، قابل اور سلجھے ہوئے انسان ہیں، ان کی رفیقِ حیات ہونا میرے لیے خوش قسمتی ہے۔ خدارا! کسی کی ذاتی زندگی یا شکل و صُورت پر تنقید نہ کیا کریں، کیوں کہ وقت اور عُمر کے ساتھ ظاہری حُسن ختم ہوجاتا ہے، اگر کچھ باقی رہتا ہے تو وہ آپ کا حُسنِ اخلاق ہے۔

س: کرا چی اور لاہور میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟

ج: (زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے)’’کراچی بہ مقابلہ لاہور ‘‘بچپن سے سُنتے آرہے ہیں۔ دونوں ہی میرے اپنے شہر ہیں اور دونوں کی اپنی تاریخی حیثیت ہے۔ مگرجو ایک بار کراچی میں بس جاتا ہے ناں، وہ یہیں کا ہو کے رہ جاتا ہے، پھر اس کا دل کہیں اور نہیں لگتا۔ مَیں نے کراچی اور لاہور میں بنیادی فرق یہ محسوس کیا کہ کراچی میں ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ یہاں سب لوگ اپنے کام ، اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں، جب کہ لاہور اس کے بر عکس ہے۔

س: رمضان کے حوالے سے کچھ خاص تیاریاں کرتی ہیں؟ عید کی شاپنگ کب اور کس کے ساتھ کرتی ہیں؟

ج: پہلے تو نہیں کرتی تھی، کیوں کہ گزشتہ کچھ برس سے تو گھر والوں سے دُور ہی رمضان منارہی تھی ۔اکیلےسحر و افطار کا مزا بھی نہیں آتا تھا، مگر اس بار خصوصی تیاریاں کررہی ہوں۔ رمضان میں تراویح پڑھنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ اور چوں کہ شادی کے بعد یہ میری پہلی عید ہے، تو اس کی خُوشی بھی دُگنی ہے۔ شوہر کے ساتھ عید کی ڈھیروں شاپنگ کی ہے۔ اب چاند رات پر ہاتھوں، پیروں میں منہدی لگواؤں گی اور اس بار تو ہم عید کرنے لاہور جارہے ہیں، تو مزا دوبالا ہوجائے گا۔

تازہ ترین