• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے چاند دیکھ کر آس پاس کھڑے افراد کو مبارک باد دی۔ کسی سے مصافحہ کیا، تو کسی سے معانقہ۔ اِسی اثنا میں دیکھا کہ ہمارے محلّے کے شاعر، فانی صاحب تیزی سے ایک جانب جا رہے ہیں، ہم بھی پیچھے پیچھے ہولیے کہ پڑوسی ہیں، مبار ک باد دینی تو بنتی ہے۔ وہ بازار کے ایک کونے میں واقع پرچون کی بند دُکان کی بینچ پر جا بیٹھے، جہاں خاصا اندھیرا تھا۔ ہم نے آگے بڑھ کر انتہائی پُرجوش انداز میں’’ فانی صاحب! عید کا چاند مبارک ہو،‘‘ کہتے ہوئے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھائے، مگر اُنھوں نے بے زاری سے کہا’’ میاں کیسی عید…؟؟‘‘ ہمیں خیال گزرا کہ شاید اُنھیں بھی دفتر سے تن خواہ نہیں ملی، اسی لیے بارش میں بھیگے کبوتر کی مانند یوں بُجھے بُجھے بیٹھے ہیں۔ پھر سوچا، اللہ نہ کرے ،کہیں خاندان میں کوئی فوتیدگی نہ ہوگئی ہو۔ واقعی ایسے موقعے پر مبارک باد دیتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ کچھ برس قبل عین چاند رات کو ایک بڑے میاں انتقال کر گئے، جن کی نمازِ جنازہ، نمازِ عید کے ساتھ ہی پڑھا دی گئی۔ مجمعے میں شامل ایک صاحب کو نہ جانے عید کی ایسی کیا خوشی چڑھی ہوئی تھی کہ اس موقعے پر بھی لوگوں کو تین، تین بار گلے مل کر عید کی مبارک باد دیتے رہے، یہاں تک کہ مرحوم کے بیٹوں اور دیگر قریبی عزیزوں کو بھی نہ بخشا۔ اوپر سے یہ بھی پوچھتے رہے’’ اور سُناؤ! عید تو خُوب گزر رہی ہے ناں۔‘‘ بہرحال، ہم نے جھجکتے ہوئے فانی صاحب سے پوچھا’’ قبلہ! خیریت تو ہے!!‘‘’’ کیسی خیریت بھیّا‘‘ ،ہمارے سوال پر اس قدر دُکھی انداز میں بولے کہ ہم بھی دُکھی ہوتے ہوتے بچے۔پھر اِک خاص ادا سے کہا؎ ’’حاصل اُس مہ لقا کی دید نہیں …عید ہے اور ہم کو عید نہیں۔‘‘ ابھی ہم پہلا شعر ہی سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اُنھوں نے ایک اور شعر داغا؎’’عید تُو آ کے مِرے جی کو جلاوے افسوس…جس کے آنے کی خوشی ہو، وہ نہ آوے افسوس۔‘‘ ’’اچھا،تو اب ہم سمجھے، یہ کوئی’’ چُھپن چُھپائی‘‘ کا چکر ہے،‘‘ ہم نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ اُنھوں نے بینچ پر پاؤں پسارے، آسمان کی طرف دیکھا اور ایک آہ بھرتے ہوئے بولے ؎’’اے ہوا تُو ہی اُسے عید مبارک کہیو …اور کہیو کہ کوئی یاد کیا کرتا ہے‘‘ ، ہم نے کہا’’ فانی صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں۔بھلا اس جدید دَور میں ہوا کو زحمت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جیب سے موبائل فون نکالیے اور اُنھیں عید مبارک کہہ دیجیے، بات ختم۔‘‘ اس پر اُنھوں نے ہماری طرف التجائی نظروں سے دیکھا، آنکھ کے کونے میں ہلکی سی نمی بھی اُتر آئی اور بولے؎ ’’اُس سے ملنا تو اُسے عید مبارک کہنا …یہ بھی کہنا کہ مِری عید، مبارک کر دے۔‘‘ ہم نے جھٹ جواب دیا’’ صاحب! ہم شریف آدمی ہیں، اس طرح کی پیغام رسانی کا کام ہم سے تو نہ ہوسکے گا۔ ویسے بھی میر تقی میر تو کسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے تھے، مگر آپ اکثر قصّاب کے تھڑے پر پائے جاتے ہیں۔ دیکھ لیں، اُن کے پاس بڑا سا بُغدا بھی ہے۔‘‘یہ سُنتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھے اور بولے’’ اَبے یار! اب ڈراؤ تو مت۔‘‘

چاند رات اور عید کے دن رونا پیٹنا معلوم نہیں شاعروں کی کوئی عالمی روایت ہے یا پھر ہم ہی اسے بھگتتے ہیں؟ لوگ عید کا چاند دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں، مبارک بادیں دیتے ہیں، مگر شاعر اندھیرے گوشوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور ایسے کندھے تلاش کرتے ہیں، جن پر سر رکھ کر ٹسوے بہا سکیں۔ یقین نہ آئے ، تو چاند رات کو دیکھ لیجیے گا، فیس بُک کے شعر و شاعری کے پیجز پر وہ قیامت برپا ہوگی کہ توبہ…!! اچھے خاصے شریف شاعر کو بھی فیشن ہی کے طور پر سہی، چاند رات کو دو، چار دُکھی شعر کہنے پڑتے ہیں، وگرنہ لوگ اُن کے شاعر ہونے پر شک کرنے لگتے ہیں۔کم ازکم ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ اس سارے بکھیڑے میں اصل قصور شعراء کی بیویوں کا ہے۔ یہ اللہ کی بندیاں اُنھیں یوں سرِ بازار’’ آپا دھاپی‘‘ پر ڈانٹتی تک نہیں اور ایک طرف ہم جیسے لوگ ہیں، جو آنکھیں مٹکانے سے پہلے بھی دَس بار سوچتے ہیں کہ کہیں خبر گھر تک نہ پہنچ جائے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی دوست نے ’’حمدیہ اشعار‘‘ پر مشتمل ایک ایس ایم ایس بھیجا، اب نہ جانے بیگم نے اُسے کیسے’’ حمیدہ کے اشعار‘‘ پڑھ لیا۔ وہ دن، جب کبھی موڈ میں ہوتی ہیں، تو کہتی ہیں’’زیادہ نیک بننے کی ایکٹنگ مت کرو۔ مَیں نے اُس روز تمھیں خود حمیدہ کے اشعار پڑھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔‘‘پھر اِس رمضان کی سُن لیجیے۔ ہم نے لائٹ ہاؤس کی بوتل گلی سے پانچ سو دانوں کی تسبیح خریدی، گھر پہنچ کر اچھے طریقے سے وضو کیا اور مصلّا بچھا کر بیٹھ گئے۔ وظیفہ مکمل کرکے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور جنّت میں حوروں کی رفاقت کی دُعا کی ہی تھی کہ پیچھے سے زور دار آواز آئی’’ ٹھیک کردوں گی سب کو، اگر کسی نے تمھاری طرف دیکھا بھی۔‘‘لو جی! یہ نیا پھڈّا کھڑا ہوگیا۔ دنیا میں تو نہ جانے کیسی کیسی حسرتیں دِل میں دبائے بیٹھے ہیں اور اب جنّت میں بھی ارمان نکالنے پر پابندی کی دھمکیاں…!! پھر اِن بیویوں کو اِس بات کا بھی بڑا شوق ہوتا ہے کہ معلوم کریں، آیا شوہر اُن سے محبّت کرتے ہیں ؟اور اگر کرتے ہیں، تو کتنی…؟؟ خواہ شادی کو کتنا ہی عرصہ گزر چُکا ہو اور گھر میں پوری کرکٹ ٹیم ڈیرے ڈالے بیٹھی ہو۔ اِس کے علاوہ، اُنھیں اِس بات کا بھی بے حد تجسّس رہتا ہے کہ شوہر اُن کے انتقال کے بعد کیا کریں گے؟ایک بیوی نے شوہر سے پوچھا’’اگر مَیں مر گئی تو کیا آپ روئیں گے ؟ شوہر تڑپ کر بولا’’ظالم پہلے تو یہ بتا، کیا مَیں اب ہنس رہا ہوں؟‘‘ اِسی طرح ایک بیوی نے شوہر سے پوچھا’’ اجی !آپ مجھ سے کتنی محبّت کرتے ہیں؟ ‘‘شوہر بولا’’اتنی محبّت، جتنی شاہ جہاں کو ممتاز سے تھی۔‘‘بیوی خوش ہوتے ہوئے بولی’’ اوہ سچّی ؟ تو کیا تم میرے مرنے کے بعد میری یاد میں تاج محل بنواؤ گے؟‘‘ شوہر نے آہ کو سینے ہی میں روکتے ہوئے جواب دیا’’میری زندگی! مَیں نے تو پلاٹ خرید بھی لیا ہے، اب تمہاری طرف سے ہی دیر ہو رہی ہے۔‘‘

………٭٭………٭٭………

ایک دوست کی پاپوش نگر مارکیٹ میں دُکان ہے۔ رمضان سے ایک ہفتے قبل خاصے مصروف نظر آئے، پکڑائی ہی نہیں دے رہے تھے۔ ہم نے پوچھا، تو بولے’’ یار! آج کل عید کی تیاریوں کے سلسلے میں خواتین نے مارکیٹ پر دھاوا بولا ہوا ہے۔‘‘پھر پتا چلا وہ سات روزہ تراویح پڑھ رہے ہیں، اس کا سبب معلوم کیا، تو اُنھوں نے بتایا’’کچھ خاص نہیں، بس وہ خواتین دسویں روزے کے بعد مارکیٹ آنا شروع کردیتی ہیں، اِس لیے افطار کے بعد سے رات دیر تک دُکان کھولنی پڑتی ہے۔‘‘ اچھا جی۔’’ چاند رات کا کیا شیڈول ہوگا؟‘‘ اِس سوال پر کہا’’ مجھے تو نمازِ عید تک دُکان کُھلی رکھنی پڑتی ہے۔‘‘’’ وہ کیوں؟‘‘ ہم نے حیرت سے پوچھا، تو بولے’’ اَبے یار، خواتین خریداری کے لیے صبح تک آتی رہتی ہیں۔‘‘ یہ خواتین ہیں یا کوئی گھن چکر، ان کی عید کی تیاری ہی نہیں ہو پاتی۔ یہاں کراچی میں رمضان سے ایک روز قبل خواتین اتنی بڑی تعداد میں شاپنگ کے لیے باہر نکلیں کہ شہر کی بیش تر سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔( اس ٹریفک جام کی کچھ اور بھی وجوہ تھیں، مگر ہم تو سارا ملبہ خواتین ہی پر انڈیلیں گے )۔کوئی زیادہ پُرانی بات نہیں، ایک پڑوسی عید کی صبح کوئی تین بجے کے قریب اوپر کی منزل سے نیچے اُتر رہے تھے، اتفاق سے ہم بھی کہیں سے آرہے تھے، اُن سے کہا’’ کیا دہی لینے جا رہے ہو؟آج سحری تو نہیں ہے…!!‘‘اس پر وہ اُکھڑے اُکھڑے لہجے میں بولے’’ ارے کیسی دہی، بیگم نے دماغ کی دہی بنادی ہے۔ اُنھیں رات کے اِس پہر پتا چلا ہے کہ سینڈل کے ساتھ جو موزے لائی ہیں، وہ میچ نہیں کر رہے، اِس لیے اب ہلکے نیلے رنگ کے موزے لینے مارکیٹ جا رہا ہوں۔‘‘ ہم بولے’’ بھیّا! اب سینڈلز میں موزے کون پہنتا ہے اور وہ بھی عید کے دن، یہ تو پُرانا فیشن ہوگیا ہے۔‘‘ کسی قدر جھنجلاہٹ سے بولے’’ یہ تو ہے، مگر اب اُنھیں کون سمجھائے۔‘‘ ہم نے ترس کھاتے ہوئے اُنھیں ایک نسخہ بتایا اور ہمیں شاباش دیجیے کہ وہ محترمہ قائل بھی ہوگئیں۔ ہے تو یہ سیکریٹ اور ہمارا آزمودہ گھریلو نسخہ، مگر عید کے موقعے پر بہ طورِ تحفہ بتائے دیتے ہیں کہ جب بھی بیوی کسی ایسی چیز لانے کا مطالبہ کرے، جو آپ لا کر نہ دینا چاہتے ہوں، بس اِتنا کہہ دیجیے’’ بیگم ہے تو یہ زبردست چیز، آپ کا انتخاب بھی کمال کا ہے، مگر اسے پہن کر تمہاری عُمر کچھ زیادہ لگے گی۔‘‘ اس کے بعد وہ مر جائیں گی، مگر وہ چیز نہیں پہنیں گی۔ عورتیں اس معاملے میں بڑی حسّاس ہوتی ہیں۔ ایک فقیر نے مارکیٹ میں خریداری کے لیے آئی خاتون سے کہا’’ آنٹی! اللہ کے نام پر دَس روپے دے دو۔‘‘ خاتون نے تیز نظروں سے اُسے دیکھا اور بولیں’’ بد شکلا !یہ دَس روپے پکڑ اور یہاں سے دفع جا۔ آنٹی اپنی ماں کو جا کر کہنا، بے شرم کہیں کا…‘‘ ویسے بھی ہمارے ہاں عید تو بیوی، بچّوں کی ہوتی ہے، صاحب تو صرف عید کا اہتمام کرتے ہیں ۔ کسے خبر نئے کپڑوں، چمک دار جوتوں، پکوانوں کی مسحور کُن خوش بوؤں کے پیچھے کیسے کیسے غمِ روزگار چُھپے ہیں اور داد دیجیے گھر کے سربراہ کو، جو سب کچھ خود ہی پر گزار لیتا ہے۔ پھر بھی بسا اوقات اُسے یہی طعنے سُننے کو ملتے ہیں’’ اِس بار تو عید کا مزا ہی نہیں آیا، شاپنگ کے نام پر بس بازار کی ہوا خوری ہی کروائی ہے۔ اِس سے تو پچھلی عید ہی اچھی تھی، کچھ ڈھنگ کے کپڑے تو دِلوا دیے تھے‘‘، حالاں کہ پچھلی عید پر بھی یہی طعنہ دیا گیا تھا کہ کچھ شاپنگ نہیں کروائی۔

………٭٭………٭٭………

بڑی خوشی کا موقع ہے کہ ہم’’ نئے پاکستان‘‘ میں پہلی عیدالفطر منا رہے ہیں۔ پچھلے سال خان صاحب بقر عید کی نماز پڑھتے ہوئے تصویر بنوانا بھول گئے تھے۔ اُنھوں نے عید سے چار پانچ روز پہلے حلف اٹھایا تھا،شاید اِسی لیے تصویر کا اہتمام نہ کر سکے ہوں گے،لیکن یاروں نے افواہ اُڑا دی کہ وزیرِ اعظم نے نماز پڑھی ہی نہیں، حالاں کہ شیخ رشید جیسے ثقہ گواہ نے بتایا بھی کہ خان صاحب نے نمازِ عید پڑھی تھی، مگر نہ ماننے والے نہ مانے۔ اِس بار اُنھوں نے بنی گالا میں مسجد بنا دی ہے، یعنی’’ مسیت بھی اپنی، تے مُلّاں بھی اپنا‘‘ سو ،اِس بار اور کچھ ہو نہ ہو ، خان صاحب نمازِ عید پڑھیں گے اور تصویر بھی بنوائیں گے۔ ہمارا تو مشورہ ہے کہ خان صاحب کی ایک دُعا مانگتے ہوئے تصویر بھی ہو ہی جائے تاکہ اُس پر کیپشن جمایا جا سکے’’ وزیرِ اعظم قوم کے لیے صبرِ جمیل کی دُعا کرتے ہوئے۔‘‘سچّی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کی دھرنے والی نمازِ عید کی ایک الگ ہی شان تھی، جو کزن جی کی امامت میں ادا کی تھی۔ کیاہی اچھا ہو کہ اِس بار پھر کزن سے امامت کروا لی جائے، کیوں کہ وہ بھی جب سے حکومت آئی ہے، ویلے ہیں ۔ پھر یہ کہ اپوزیشن نے عید کے بعد دھرنوں شرنوں کا اعلان کیا ہے، ایسا نہ ہو، کزن اُن سے جا ملیں، کیوں کہ؎ ’’چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ اور دھرنے کا شوق بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پھر قادری صاحب ہیں بھی ہیٹ ٹرک پر، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے خلاف دھرنا دے چُکے، اب تیسری حکومت ہے، اس لیے ہیٹ ٹرک کا پورا پورا چانس ہے۔

………٭٭………٭٭………

ہم نے سوچا،’’ نئے پاکستان‘‘ میں پہلی عید ہے، تو کچھ خاص ہوجائے۔لہٰذا، سسرال سے کسی زمانے میں ایک کپڑے کا سوٹ ملا تھا، وہ لے کر پُرانے درزی کے پاس پہنچ گئے۔’’ ریاض بھائی! بڑی خاص جگہ سے یہ سوٹ آیا تھا اور تیرہ برس سے اِکلوتا ہی ہے، ذرا اچھا سا سی دینا‘‘، اس پر وہ بولے’’ کیوں نہیں، مگر سلائی دو سو روپے بڑھ گئی ہے‘‘، اس پر ہم نے چونک کر کہا’’ وہ کیوں…؟؟‘‘ اُنھوں نے گنگناتے ہوئے کہا’’ تبدیلی آئی ہے۔‘‘ جوتے والے کے پاس پہنچے، تو وہاں سے بھی پچھلے سال جیسا جوتا کوئی پانچ سو روپے مہنگا ملا، جواب وہی،’’ تبدیلی آئی ہے‘‘۔اس تبدیلی نے بیگم کی شاپنگ کے دَوران جیب کو جو جھٹکے دیے، اب اُس کا حال کیا سُنائیں۔ ایک روز تبدیلی کے نت نئے تحفوں سے تنگ آکر ہم نے آنکھیں موندیں اور خان صاحب سے درخواست کی’’ اے میرے کپتان! اگر اجازت ہو، تو صرف تھوڑا سا گھبرا لیا جائے‘‘، اس پر وہ بولے’’ نہیں، بالکل نہیں، عید پر آپ نے بالکل نہیں گھبرانا، کیوں کہ آپ نے سارا سال جو پریشان ہونا ہے۔‘‘اس بار عید پر وزرا کچھ زیادہ ہی پریشان دِکھائی رہے ہیں، حالاں کہ اس موقعے پر ان کی’’ آنیاں جانیاں‘‘ دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ اُنھیں کسی نے مشورہ دیا تھا کہ بڑی بڑی چھوڑو، اس سے ایک تو چھوٹا آدمی بھی بڑا لگتا ہے اور لوگ اپنے چھوٹے موٹے مطالبات اور خواہشات بھلا کر بڑے خوابوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اس پر ایک وزیر نے لاکھوں ملازمتوں کا شوشا چھوڑا، تو دوسرے نے قوم کو 54 روپے میں ہیلی کاپٹر کی سیر کا جھانسا دیا اور پھر پیٹرول 109 کا کردیا۔ اصل میں اوپر کا اثر نیچے ہوتا ہے، خان صاحب نے روشنی کی رفتار سے ٹرین چلوادی تھی، تو وزراء تُھوک سے عمارتیں کیوں نہ کھڑی کریں…؟؟ایک آدمی نے امرود لیا تو اُس میں کیڑا نکلا۔ اُس نے ٹھیلے والے سے کہا’’اِس میں سے تو کیڑا نکلا ہے۔‘‘ وہ بولا’’ یہ تو قسمت کی بات ہے، کیا پتا اگلی بار گاڑی نکل آئے۔‘‘ آدمی نے کہا’’ اچھا! پھر تو دو کلو اَمرود اور دے دو۔‘‘ وزراء بھی عوام کو کچھ ایسے ہی دِلاسے اور لارے لپّے دے رہے ہیں اور ہم بھی کیا سادہ ہیں کہ اُن کی باتوں کے چکر میں آدھی سے بھی ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں۔ اُدھر وزیرِ اعظم نے چند ماہ قبل قوم کو جلد خوش خبری سُنانے کا اعلان کیا، تو ہمارا دھیان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا، مگر پتا چلا، ایسی کوئی بات نہیں، وزیرِ اعظم کا اشارہ سمندر سے تیل وگیس کی تلاش کی طرف تھا۔ قوم کو اُمید تھی کہ عید سے قبل کوئی خوش خبری مل جائے گی، مگر سمندر سے بھی کورا جواب آ گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں، سمندر کی تہہ سے کوئی کاغذ نکلا ہے، جس پر لکھا تھا’’ تم نے اُن کی بات پر اعتماد بھی کرلیا…!!‘‘ جتنے منہ، اُتنی باتیں۔اُسی سلسلے میں ایک صاحب نے کہا’’ کیا آپ کو اندر کی بات معلوم ہے؟‘‘ ہم نے کہا’’ نہیں جی‘‘۔ بولے’’ تم اخبار والے ہو، اس لیے یہ تو پتا ہی ہوگا کہ زمین گول ہے۔‘‘ ہم نے کہا’’ اگر ہم اخبار والے نہ ہوتے، تب بھی کم ازکم یہ تو ضرور پتا ہوتا کہ زمین گول ہے۔‘‘ ہماری بات سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے گویا ہوئے’’ اندر کی بات یہ ہے کہ تیل نکلنے والا ہے، مگر حکومت دنیا سے بات چُھپا رہی ہے‘‘، ’’مگر کیوں…؟؟‘‘ ہمارے کیوں پر وہ گردن ہلا کر دیر تک مُسکراتے رہے، پھر بولے’’ اصل میں زمین گول ہے، اس لیے اس میں سوراخ کیا جا رہا ہے اور یہ سوراخ بہت جلد روس تک پہنچ جائے گا، پھر وہاں کا سارا تیل چوری چُھپے پائپ ڈال کر یہاں لے آئیں گے۔‘‘ ہم نے اپنے سَر پر ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا’’ یہ تم نے کہاں پڑھا؟ کس سے سُنا؟‘‘ بولے’’ اپنے فوّاد چوہدری نے یہ مشورہ دیا تھا۔‘‘ آپ ہی بتائیں، اس پر ہم کیا کہتے، رمضان سے قبل وزراء کے ایسے بیانات کا ہم بھی کچھ دفاع کرلیتے تھے، مگر روزے کی حالت میں یہ رِسک نہیں لیا جا سکتا تھا کہ اس سے روزہ مکروہ ہونے کا اندیشہ تھا۔

………٭٭………٭٭………

ہر برس کئی روز قبل خبر چَھپ جاتی ہے کہ کون کہاں عید کرے گا، مگر اِس بار تو کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کون کہاں اور کیوں عید کرے گا…؟؟میاں صاحب نے ماضی کی طرح لندن میں عید کی بہتیری کوشش کی، مگر بات نہ بنی۔ ہمارا مشورہ ہے کہ اگر وہ جیل سے نہ نکل سکیں، تو اُنھیں روزِ عید قیدیوں سے خطاب کا موقع ضرور دینا چاہیے کہ سیاست دان اس کے بے حد شوقین ہوتے ہیں۔تاہم، الفاظ کے چناؤ میں اُنھیں احتیاط برتنا ہوگی۔ کہتے ہیں، ایک سیاست دان قیدیوں کی حالت کا جائزہ لینے جیل پہنچے۔ جب سارے قیدی اکٹھے ہو گئے، تو جیلر نے اُن سے خطاب کی درخواست کی، جس پر سیاست دان نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی تقریر شروع کر دی’’ میرے معزّز شہریو!‘‘ مگر قیدیوں کے چہروں پر مُسکراہٹ دیکھ کر اُنھیں خیال آیا، جیل میں آنے کے بعد وہ معزّز شہری نہیں رہے۔ اُنھوں نے فوراً بات پلٹی’’ میرے ساتھی مجرمو !‘‘ لیکن یہ الفاظ تو پچھلے الفاظ سے بھی زیادہ خطرناک تھے، چناں چہ اُنھوں نے جھلّا کر کہا’’ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تمہیں کیا کہہ کر مخاطب کروں، لیکن خود کو تمہارے درمیان پا کر بہت خوشی ہو رہی ہے، یوں لگتا ہے، جیسے میں اپنوں میں آگیا ہوں۔‘‘ زرداری صاحب کا بھی کچھ اَتا پتا نہیں، عید کدھر ہوتی ہے۔کئی اور وزیروں، مشیروں نے بھی عید کے کپڑے ہینگر کرنے کی بجائے بیگ میں رکھوا رکھے ہیں تاکہ بہ قوتِ ضرورت جیل لے جائے جا سکیں۔ ویسے اپوزیشن کا حال بھی اُن تین افراد کی طرح ہے، جو کہیں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور کھانے میں نمک کم تھا۔ اُنہوں نے کہا’’ جو پہلے بولے گا، وہ نمک لے کر آئے گا۔‘‘ تینوں خاموش بیٹھے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ کون پہلے بولے گا۔ اِس طرح تین دن گزر گئے، لیکن کوئی بھی نہ بولا اور نہ ہی کھانا کھایا۔ چوتھے دن تینوں بے ہوش ہوگئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ شاید مر گئے ہیں، تو اُنہوں نے تینوں کا جنازہ پڑھایا اور دفنانے کے لیے قبرستان لے گئے۔ جب پہلے شخص کو قبر میں اُتارا، تو وہ بول پڑا ”اوے! مَیں زندہ ہوں“۔ یہ سُنتے ہی باقی دونوں بول پڑے ”چل فیر نمک لے آ۔“شاید اپوزیشن جماعتیں بھی اسی لیے ایک دوسرے کے پیچھے چُھپ رہی ہیں کہ جو بولے گا، وہی کنڈی کھولے گا۔ پچھلے دنوں بلاول بھٹّو نے اپوزیشن رہنماؤں کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا، جس سے سیاست خاصی گرما گرم رہی۔ سُنا ہے افطاری کے دَوران حمزہ شہباز نے پکوڑوں کا تھال اپنی طرف گھسیٹا، تو آصف زرداری بولے’’ بیٹا دھیان سے گھسیٹنا، تمھارے ابّو بھی کسی کو گھسیٹنے کے چکر میں خود گھسیٹے گئے۔‘‘

………٭٭………٭٭………

دو طبقات کی عید ہمیشہ ہی اچھی ہوتی ہے۔ ایک فقیر اور دوسرے تاجر، دونوں عید سے قبل عوام کی جیب سے مال نکالنے کے ہزار جتن کرتے ہیں اور کمال تو یہ ہے کہ سب ہی کام یاب رہتے ہیں۔ یہ تاجر اُلٹی چُھری سے عیدی وصولی کرتے ہیں، مگر اپنی باری میں ایسی احتیاط برتتے ہیں کہ کوئی اُن کا ایک دھیلا بھی نہ کھا سکے۔ ایسے ہی ایک شیخ صاحب نے مٹھائی کی دُکان کھولی، تو اخبار میں اشتہار دیا’’ ہمیں اپنی مٹھائی کی دُکان کے لیے ایسے پڑھے لکھے اور محنتی افراد کی ضرورت ہے، جنہیں شوگر ہو۔‘‘ جہاں تک بات فقیروں کی ہے، تو یہ عید کا لازمی حصّہ بن چُکے ہیں۔ رمضان شروع ہوتے ہی گلیوں، بازاروں، ٹریفک سگنلز غرض جگہ جگہ ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور صرف یہی نہیں، بعض اوقات تو ان کی کھینچا تانی بدتمیزی تک جا پہنچتی ہے، بس یوں سمجھ لیجیے، فقیروں اور ٹریفک اہل کاروں کی تقریباً ایک ہی جیسی’’ عیدی مہم‘‘ ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ بعض فقیروں نے تو باقاعدہ ریٹس فکس کیے ہوتے ہیں، جس پر سمجھوتا بھی نہیں کرتے۔ کوئی ایک سو روپے اور کوئی پچاس روپے لینے کی ضد کرتا ہے، پوش علاقوں میں پانچ سو، ہزار کا بھی ریٹ چلتا ہے۔ بھکاری نے ایک آدمی سے کہا’’ پانچ روپے کا سوال ہے بابا‘‘، اس پر وہ شخص بولا’’ تم سامنے والے شخص سے تو پچاس روپے مانگ رہے تھے‘‘۔ فقیر بولا’’ بابا آدمی کی اوقات دیکھ کر ہی سوال کرتا ہوں۔“ کرلو گل…

تازہ ترین