• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ ہفتہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پارلیمنٹ اور ہم نے ٹی وی کے آگے دھرنے میں گزارا۔ اندھیری راتوں میں بارودی آتش بازی کا ایسا مظاہرہ زندگی میں پہلی بار دیکھنے کو ملا۔ یقین کیجئے دھرنے کے اٹھنے اور اس کے لپیٹے جانے کے بعد یوں لگتا ہے کہ زندگی سے امید اور چنگاری بھی جاتی رہی مگر اس کے اثرات اب بھی ہمارے قائدین کے اعصاب پر سوار نظر آرہے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلزپر تقریباً ہر روز اس موضوع پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اور اس کی گونج اقتدار کے ایوانوں میں بھی سنائی دی۔ اس پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کے مندرجہ ذیل نکات غور طلب ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمارے قائدین کی استحصالی سوچ پر مبنی مفاد پرستی ملاحظہ فرمائیے کہ تمام سیاست دان ما سوائے چندکے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف متحد نظر آئے۔ اور ان کی توجہ اور سوچ کا مرکز فقط ڈاکٹر صاحب کی کردار کُشی ہی رہا۔ اطلاعات و نشریات کے کہنہ مشق وزیر نے ڈاکٹر صاحب کو اطلاعاً عرض کیا کہ وہ پہلے دہری شہریت سے دستبردار ہو کر سیاسی پارٹی کو رجسڑ کروائیں اس کے بعد ہی سیاسی معالج سے رجوع کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ ہم ہر کام میں سازش کوملٹّھی کے طور پر استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس بار بھی ہم نے پچھلے پانچ سالوں کی طرح فوج اور عدلیہ کو اس مارچ اور دھرنے میں دھرنے کی کوشش کی ، شکر ہے اس میں کامیابی نہ ہوسکی۔ چندبیرونی قوتوں کے خدمتگاروں کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کا کام قادری صاحب کے حوالے نہ کر دیا ہو!۔ تبھی تو ان کے شخصِ خاص کو قادری کی ٹوپی میں پادری نظر آیا۔ ہمار ی تیسری میڈیا کی قوّت جو اب تقریباً ایٹمی قوّت بن چکی ہے اس نے اپنے میزائلوں سے لیس ہو کر پورے منظر نامے کی کایا ہی پلٹ ڈالی البتہ بعد میں ”گائیڈڈ مسالے“ میں کمی کی وجہ سے ان کی سمت کچھ درست ہونا شروع ضرور ہوئی لیکن سارے معاملے میں قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر بیٹھے۔
قارئینِ کرام! قادری صاحب خود آئے یا بھیجے گئے ، وہ قادری تھے یا پادری، کوئی ان کے آگے تھا یا پیچھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنے بڑے اور منظم مجمع کے ساتھ آئے اور خوب کہہ گئے جو ایک توجہ دِلاؤ نوٹس سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے ۔ مَیں اپنے گذشتہ کالم میں بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ ان کو سنیے،سمجھئے اورپرکھیے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔ حکومت نے ان کو سنا تو سہی لیکن کافی نقصان کے بعد اور اب ہم اس معاہدے کو لولی پوپ اور ردی کے کاغذ سے تشبیہ دے رہے ہیں حتیٰ کہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کونسا معاہدہ اور کیسا معاہدہ؟۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم آمرانہ وائرس کا شکا ر ہونے کی وجہ سے جمہوری سوچ سے محروم ہیں۔ اگر ہم غلطی سے بھی کسی وقت سیاسی پختگی کا مظاہرہ کر ہی بیٹھیں تو کوئی نہ کوئی سیاسی منچلا ایسی پھلجھڑی چھوڑنے سے باز نہیں آتا جس سے تمام ماحول غیر سنجیدہ ہو جائے۔ آمرانہ سوچ کا مظاہرہ کوئٹہ میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب ہزارہ قبیلے کے لوگ اپنے پیاورں کی لاشیں لے کر دھرنا دئیے ہوئے تھے اور وزیر اعظم ان سے مذاکرات کرنے کیلئے پہنچے تو وزیر اطلاعات نے ایک بزرگ کو وزیر اعظم سے بالواسطہ مذاکرات کرنے سے روکا جس پر ایک نوجوان بولا کہ کیا ہم وائسرائے سے بات کر رہے ہیں یا کسی جرنیل سے؟ یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آئین بالکل واضح ہے اور ہر مسئلے کے حل کو اپنے اندر سموئے بیٹھا ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس آئین کو وضو کر کے خلوصِ نیت سے پڑھیں، سمجھیں اور اپنی سوچ کو اس کی روح کے مطابق ڈھالیں تا کہ یہ مسائل زدہ قوم اندھیروں سے نکل کر روشنی میںآ سکے۔ آپ کب تک اس طر ح کے False Alarm بجا کر قوم کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو سوچ لو کہ اس طر ح کتنے لانگ مارچو ں کوکتنے کنٹینروں سے روکو گے ؟ ہر گز نہیں روک سکو گے کیونکہ یہ قوم اب بیداری کی انگڑائی لے چکی ہے۔
تازہ ترین