• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ باتیں انسان کتابوں میں پڑھتا ہے اور کچھ زندگی کی کتاب پڑھاتی اور سکھاتی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں کتابیں بتاتی تھیں کہ صرف خدا اور جج تنہائی میں رہتے ہیں۔ عدلیہ کی مانند نیب جیسے عدالتی و احتسابی اداروں کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا ’’تنہائی‘‘ میں رہنا خود ان کے مفاد میں ہے۔ تنہائی سے مراد سوشل میل ملاپ، غیر ضروری گفتگو یا اپنا امیج بنانے سے پرہیز اور اجتناب ہے۔سیانی کتابیں یہ سبق دیتی ہیں کہ جج خود نہیں بولتا، اُس کے فیصلے بولتے ہیں۔ جب فیصلوں سے قبل جج اپنی سوچ سے پردے سرکانے لگیں تو فیصلہ وقت سے بہت پہلے ’’لیک آؤٹ‘‘ ہو جاتا ہے جس سے عدلیہ کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں ایک رسم چل نکلی ہے کہ فیصلوں سے پہلے ججوں نے بھی ’’تھوڑا تھوڑا‘‘ بولنا شروع کردیا ہے۔ عوام کی سطح پر ججوں کی مبارک زبانوں سے نکلے الفاظ ایک تاثر قائم کر دیتے ہیں۔ عام طور پر تاریخ اور انسانی حافظہ ان فیصلوں کو اپنے تاثر کے زیر اثر دیکھتا ہے۔ جج صاحبان جو مرضی ہے وضاحت دیتے رہیں۔ مثال کے طور پر چیف جسٹس منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کے قانون ساز اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو جائز قرار دیا جسے تاریخ ظلم گردانتی اور غلط ترین فیصلہ قرار دیتی ہے۔ جسٹس منیر ہزار تاویلیں دیتے کہ اسمبلی توڑنے کا اختیار گورنر جنرل کی ملکیت تھا اور دستور ساز اسمبلی کے ترمیمی ایکٹ پر ابھی گورنر جنرل نے دستخط نہیں کئے تھے لیکن ان سے کوئی فرق نہ پڑتا۔ اسی طرح ہزار وضاحتیں اور تاویلیں پیش کریں لیکن سوادِ اعظم کے اس تاثر کو زائل نہیں کر سکتے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دینے والا فیصلہ کمزور تھا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی ایک تاثر بن گیا تھا جس کی فیصلے نے تصدیق کردی۔ یہ تاثر کیسے تشکیل پاتا ہے؟ معزز جج حضرات کی گفتگو اور فقروں سے جنہیں میڈیا اچھالتا اور بریکنگ نیوز بناتا ہے۔ چنانچہ طے یہ ہوا کہ جب فیصلوں سے قبل جج صاحبان اپنی سوچ اور اپنے ذہن کے گوشوں سے پردے سرکانا شروع کردیں گے تو فیصلوں سے پہلے ایک عوامی تاثربن جائے گا اور سچ یہ ہے کہ یہ ایک ’’مہلک‘‘ صورتحال ہوتی ہے جو نہ عدلیہ کے مفاد میں ہے نہ عوام کے۔ میں نے طویل سرکاری ملازمت میں امیج بلڈنگ (Image Building) کا کریز (Craze)بہت دیکھا ہے یعنی ہر قسم کے حکمرانوں پر امیج بنانے کا خبط سوار دیکھا ہے۔ سوار کا مطلب ہوتا ہے کہ انسان کی باگیں اس خواہش کے ہاتھ میں آجاتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ خواہشات انسان کو خوار کرتی ہیں اور کبھی کبھی برباد بھی۔ بابِ علم و دانش حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں۔ ضروریات تو بھکاری کی بھی پوری ہوجاتی ہیں لیکن خواہشات بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتیں۔ جب سے نیب بنا ہے میں نے اس کے سربراہان کو امیج بلڈنگ کی خواہش میں مبتلا دیکھا ہے۔ شاید پہلے سربراہ جنرل امجد واحد سربراہ تھے جنہوں نے مستعفی ہونے کے بعد انٹرویو دیئے ورنہ نیب کا ہر سربراہ امیج بنانے کے لئے ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا ہے۔ نیب ایک قومی احتسابی ادارہ ہے۔ اس کی منزل کرپشن کا خاتمہ ہے۔ جب کرپشن کے خاتمے کے لئے ادارہ مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالے گا تو ظاہر ہے کہ اس کے مخالف گھاگ لوگ اسے بدنام کرنے کے لئے ہر حیلہ آزمائیں گے۔ معاشرے میں بے تکلف خواتین کی بھی کمی نہیں اور آئی ٹی کے ذریعے سوشل میڈیا کا اس مقصد کے لئے استعمال بھی ایک آسان طریقہ واردات ہے۔ ایک بار دامن پہ داغ لگ جائے، ہزار کوشش کیجئے وہ مٹ نہیں سکتا۔ گویا جج کی تنہائی اور میل ملاپ سے اجتناب اسی سنہری اصول کا تقاضا ہے۔ البتہ چیئرمین نیب بارے میڈیا پر وائرل ویڈیو پر فی الحال میں تبصرہ نہیں کرسکتا۔

بات ہو رہی تھی امیج بلڈنگ کے خبط کی۔ سیاستدان، سیاسی، عوامی یا سوشل ورکرز امیج بنائیں اور اپنے کردہ ناکردہ کارناموں کی تشہیر کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ جج یا احتسابی حضرات اس خواہش کا پیچھا کریں تو نہ ہی صرف یہ بات ناقابلِ فہم ہے بلکہ اس کا نتیجہ بہرحال خانہ خرابی نکلتا ہے۔ تلوار کی دھار پر چلنے والے ان حضرات کو یہ اصول ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جج نہیں بلکہ فیصلے بولتے ہیں۔ اصلی اور سچا امیج کام اور کارکردگی سے بنتا ہے نہ کہ زبانی دعوئوں سے۔ آئی جی پولیس ہزار انٹرویو دے لے لیکن چند پولیس والوں کا لڑکی کو ریپ کرنا، جعلی مقابلے، حوالات میں معصوم لوگوں کو ٹارچر اور پھر ٹارچر کے سبب اموات، ہر بات پر رشوت کا تقاضا آئی جی کے سینکڑوں انٹرویوز پر پانی پھیرنے کے لئے کافی ہے۔ ایف آئی اے کا سربراہ ہزار دعوے اور پریس کانفرنسیں کرے، کوئی نہیں مانے گا۔ مطلب یہ کہ امیج کارکردگی سے بنتا ہے نہ کہ تشہیر سے۔ مشکل یہ ہے کہ نیب میں ایک پی آر کا محکمہ بھی ہوتا ہے۔ پی آر کے لوگ اکثر چیئرمین کے نام سے کالم لکھ کر پریس میں تعلقات کے زور پر چھپواتے رہتے ہیں، جنھیں کوئی نہیں پڑھتا لیکن ان بیچاروں کی نوکری کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی کسی ’’نابغے‘‘ اور ذہین و فطین نابالغے نے چیئرمین نیب کو انٹرویو کا مشورہ دیا اور مقبول کالم نگار جاوید چوہدری کا نام تجویز کیا۔ اصولی طور پر چیئرمین نیب کو یہ تجویز جھٹلا دینا چاہئے تھی لیکن وہ خواہش کے فریب کا شکار ہوگئے۔ اپوزیشن کو اور کیا چاہئے؟ ’’ہور چوپو‘‘ ۔ خود آپ اپنے جال میں صیاد آگیا۔

عمران خان سیاسی لیڈر اور وزیراعظم ہیں، عوامی مقبولیت ان کی ضرورت ہے، ان حالات میں جب مہنگائی، کرپشن اور لاقانونیت نے عوام کو مایوسی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے انہیں مقبولیت بچانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہ اچانک طوفانی دوروں پر چل نکلے ہیں۔ اسپتالوں اور تھانوں کے دوروں کے بعد وہ جمعہ بازاروں اور عوامی پناہ گاہوں میں اچانک وارد ہوں گے۔ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو یا نہ ہو لیکن یہ راز فاش ہوگیا کہ انہیں پنجاب کے وزیراعلیٰ کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر عرض کر رہا ہوں کہ وزیراعظم کے دوروں سے ان اداروں کی کارکردگی ہرگز بہتر نہیں ہوگی۔ شہباز شریف مظلوموں کے سروں پر ہاتھ دھرنے اور اچانک دوروں پر اربوں روپے صرف کر گئے۔ جن اداروں کا یہ کام تھا ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے ذاتی جادو کے طریقے پر عمل کیا اور نتیجہ صفر + صفر= صفر۔ تاریخی اصول ہے کہ بڑا لیڈر ادارے مضبوط کر کے انہیں مؤثر و متحرک کرکے اور ان کی کمان سنبھال کر حکومت چلاتا ہے، ان کی کارکردگی پر کڑی نگاہ رکھتا ہے جبکہ چھوٹا یا ناتجربہ کار لیڈر ان اداروں کا کام خود سنبھال کر انتشار پھیلاتا اور ناکامی کا تاثر قائم کرتا ہے۔ فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔ باقی اِن شاءاللہ پھر۔

تازہ ترین