• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی کے پانچ سال پورے ہونے والے ہیں۔ کل رات میں نے ایک رکن قومی اسمبلی سے پوچھا کہ کیا آپ نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے؟ رکن اسمبلی نے سوال سن کر بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ شائد وہ الیکشن نہ لڑے۔ یہ جواب میرے لئے انتہائی غیر متوقع تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو رکن اسمبلی نے کہا کہ ابھی میں بوڑھا تو نہیں ہوا لیکن سیاست نے تھکا دیا ہے۔ میں نے اس سیاسی تھکاوٹ کی تفصیل میں جانے کی کوشش کی تو رکن اسمبلی صاحب غضب ناک ہو گئے۔ کہنے لگے کہ سوچتا ہوں کہ کیا مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ میں میڈیا کی گالیاں کھاؤں، ووٹروں کے نخرے اٹھاؤں، اپنی جمع پونجی بچوں پر خرچ کرنے کی بجائے الیکشن پر لگاؤں؟ پھر قومی اسمبلی کا رکن بن جاؤں اور مزید 5 سال کی رسوائی کا عذاب اٹھاؤں؟
موصوف غصے میں آ چکے تھے۔ کہنے لگے کہ سیاستدان اس ملک کا سب سے مظلوم طبقہ ہے، جو خود ٹیکس چوری کرتے ہیں سیاستدانوں کو ٹیکس چور قرار دے ڈالتے ہیں جو خود آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورے نہیں اترتے وہ ہم سیاستدانوں کے کردار میں سے امانت اور دیانت تلاش کرنے لگتے ہیں بس میں نے سوچ لیا ہے کہ الیکشن نہیں لڑنا، میں بچوں سمیت کینیڈا جا رہا ہوں، میں وہاں کی شہریت حاصل کروں گا، میں نے پچھلے پندر ہ بیس سال میں اپنے علاقے کے لوگوں کی بڑی خدمت کی ہے، اگلے پندرہ بیس سال تک کسی بھی وقت پندرہ بیس ہزار لوگوں کو سڑکوں پر لانا میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ میں پانچ سال کینیڈا میں گزار کر اگلے الیکشن سے چند ماہ پہلے واپس آؤں گا، ایک بلٹ پروف ٹرک پر چڑھوں گا اور پندرہ بیس ہزار لوگوں کے ساتھ آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا ورد کرتا ہوا اسلام آباد پہنچوں گا، اگر تم لوگوں نے مجھے اہمیت نہ دی تو میں کسی بدنام زمانہ ایڈور ٹائزمنٹ ایجنسی کے ذریعہ میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار کر دوں گا پھر دیکھوں گا تم مجھے کیسے اہمیت نہیں دیتے؟ اس جملے نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔ میں نے اس آگ پر قابو پاتے ہوئے احتجاجی لہجے میں کہا کہ کیا تم نے میڈیا کو بکاؤ مال سمجھ رکھا ہے؟ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہم سچ کی خاطر نوکریوں سے نکالے جاتے ہیں، ہم پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، ہمیں اغواء کیا جاتا ہے، ہمیں قتل کیا جاتا ہے ہمیں دھمکایا جاتا ہے ہم پھر بھی سچ کہنے سے باز نہیں آتے، چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے میڈیا کو بکاؤ مال قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میری تکلیف دیکھ کر رکن اسمبلی کو کچھ قرار آ گیا اور فرمانے لگے کہ کیا سیاستدان قتل نہیں ہوتے، کیا سیاستدان گرفتار نہیں ہوتے ، کیا سیاستدانوں پر جھوٹے مقدمے نہیں بنتے کیا سیاستدانوں پر جھوٹے الزامات نہیں لگتے؟ کیا چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے سب سیاستدانوں کو چور، لٹیرے، یزید اور فرعون کہنا جائز ہے؟ سیاستدان میڈیا کی کالی بھیڑوں کے خلاف احتجاج کرے تو بہت برا ہو جاتا ہے، آزادی صحافت کا دشمن قرار پاتا ہے، الطاف حسین کو بھی معذرت کرنی پڑتی ہے لیکن میڈیا جو مرضی کرے، جھوٹی خبریں نشر کرے، پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکس چور کے حق میں اشتہارات چلائے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بھائی ہم ہارے تم جیتے۔ ہمیں معاف کر دو۔ ہم یہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ تم لوگوں کا علاج صرف جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الحق ہے وہ ملک توڑے یا تمہارا سر توڑے، میڈیا اور عدالتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں سیاستدان ملک بنائیں یا بچائیں وہ ڈاکو اور لٹیرے کہلائیں گے۔ گڈ بائی۔ میں جا رہا ہوں۔
رکن قومی اسمبلی صاحب مجھے جلی کٹی سنا کر پارلیمنٹ ہاؤس کی پُر پیچ راہداریوں میں غائب ہو چکے تھے اور میں حیران و پریشان کھڑا اپنے ایک ساتھی کا منہ تکے جا رہا تھا۔ آج کل بہت سے ارکان اسمبلی ہم میڈیا والوں کے ساتھ ناخوش نظر آتے ہیں۔ سب سیاست چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن بجھے بجھے اور تھکے تھکے سے بھی لگتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے دوست عمر چیمہ نے ان سیاستدانوں کی فہرست جاری کی تھی جنہوں نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے۔ آج کل ایسے سیاستدانوں میں سے جو بھی ملتا ہے وہ مجھے یہی کہتا ہے کہ آپ میڈیا والے صرف سیاستدانوں کے کپڑے اتار سکتے ہیں کیونکہ ہم آپ کو اغواء نہیں کرتے اور آپ کے سر کے بال نہیں منڈواتے جو لوگ آپ کو اغواء کر کے تشدد کرتے ہیں ان کا آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ حکومت کے ایک بہت طاقتور وزیر صاحب آج صبح مجھے کہہ رہے تھے کہ میڈیا نے شاہ زیب خانزادہ اور کامران فیصل کے لئے بہت شور مچایا، اچھا کیا لیکن کاش کہ آپ لوگ اکبر بگٹی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے بھی ایسے ہی شور مچاتے۔ میں نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر وزیر صاحب سے کہا کہ بگٹی صاحب کے نامزد قاتل آپ کی حکومت کے اتحادی ہیں جب ہم قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو جمہوریت کے خلاف سازشیں یاد آ جاتی ہیں۔ بیچارے وزیر صاحب نے فوراً ہاتھ جوڑ دیئے اور کہا کہ بھائی معاف کر دو آئندہ گستاخی نہیں کروں گا۔
وزیر کی معافی اور اس کی عاجزی نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا میں نے اپنی غلطی پر کبھی کسی سیاستدان سے معافی مانگی ہے؟ ٹھیک ہے سیاستدانوں نے بہت غلطیاں کی ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی ہمارا فرض ہے لیکن کیا پاکستان کی تمام خرابیوں کے ذمہ دار صرف سیاستدان ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کسی فوجی جرنیل نے نہیں بنایا بلکہ سیاستدانوں نے بنایا تھا۔ جب سیاستدان انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے تو جنرل ایوب خان انگریزوں کے تنخواہ دار تھے۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد جب چور اور لٹیرے سیاستدانوں نے مذاکرات کے ذریعہ گوادر کو پاکستان کا حصہ بنایا تو جنرل ایوب خان نے عدلیہ کی مدد سے ان سیاستدانوں کو زیر کر لیا۔ موصوف کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے فوجی طاقت کی مدد سے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر بنگالیوں کو پاکستان سے متنفر کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ جنرل یحییٰ خان کے حکم پر پاکستانی فوج نے بھارت کے سامنے سرنڈر بھی کیا لیکن کسی کا احتساب نہ ہوا البتہ کچھ سالوں بعد پاکستان کو 1973ء کا متفقہ آئین دینے والے اور ایٹمی پروگرام شروع کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو جرنیلوں نے عدلیہ کے ساتھ مل کر پھانسی پر لٹکا دیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا۔ آج تک سیاچن پر قبضے کی کوئی انکوائری نہ ہوئی لیکن 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیراعظم نواز شریف کو حکومت سے بھی نکالا گیا اور جلا وطن بھی کیا گیا۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر پر سرنڈر کیا گیا اور امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے دیئے گئے۔ یہ کام کوئی سیاستدان کرتا تو غدار ٹھہرتا لیکن کیونکہ مشرف ایک جرنیل تھا لہٰذا اسے گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔ پچھلے پانچ سال میں بہت کرپشن ہوئی بہت الزامات سامنے آئے لیکن کیا اسی کرپٹ حکومت نے شمسی ایئر بیس سے امریکہ کو نہیں نکالا؟ کیا ان چور اور لٹیرے سیاستدانوں نے این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق نہیں کیا؟ کیا ان چور لٹیرے سیاستدانوں نے آئینی ترامیم کے ذریعہ صدر کے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس نہیں کئے؟ کیا ایک منتخب وزیراعظم توہین عدالت کے الزام میں نااہل نہیں ہوا؟ کیا ایک نا اہل وزیر اعلیٰ کو بلوچستان میں فارغ نہیں کیا گیا؟ 65 سال میں سے 32 سال جرنیلوں کی حکومت تھی۔ جرنیل این آر او پر دستخط کر کے بچ جاتا ہے سیاستدان پھنس جاتا ہے۔ ہمیں سیاستدانوں پر تنقید ضرور کرنی چاہئے لیکن سیاست کو گالی نہ بنایا جائے۔ سیاستدان اپنی غلطی پر معافی مانگ لیتا ہے ڈکٹیٹر چوری کر کے بھی سینہ زوری کرتا ہے۔ سیاستدان کو ہم ووٹ کی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں ڈکٹیٹر تو تنقید کرنے والوں کو منظر سے ہٹا دیتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ بڑا چور لٹیرا کون ہے؟ کمزور لٹیرے پر تنقید اور طاقتور لٹیرے سے خوف کھانا کہاں کی بہادری ہے؟
تازہ ترین