• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راقم نے 1973میں جب پہلا حج کیا تو اُس زمانے میں کراچی ائیرپورٹ مکمل ائیر کنڈیشنڈ اور خوبصورت ہوتا تھا جو بعد میں وی آئی پی بنا دیا گیا۔ جب راقم جدہ ائیر پورٹ پر اترا تو وہاں سیمنٹ کی چادریں، غیر ائیر کنڈیشن اور پتھروں کی بنچیں تھیں۔ گھنٹوں میں امیگریشن سے فارغ ہوئے تو باہر آکر خود معلم کا انتخاب کیا۔ اس نے ہمارے جدہ سے مکہ مکرمہ جانے اور رہائش کا بندو بست کیا۔ اس زمانے میں جدہ چند میل پر واقع تھا اس کو بلد کہتے ہیں، سعودیہ میں نیا نیا پیٹرول دریافت ہوا تھا، غربت بہت تھی، جدہ سے مکہ مکرمہ جانے کیلئے صرف ایک پگڈنڈی نما سڑک ہوتی تھی جس پر بمشکل ایک گاڑی ہی آمنے سامنے سے آجا سکتی تھی۔ بہت پرانی بس پر معلم صاحب اپنے مسافروں کو سوار کرا کے مکہ مکرمہ لائے، کوئی ہوٹل نہیں تھا، حرم میں چند سو افراد طواف کر رہے تھے، بجری بھرے فرش پر طواف کرنا تھا، گرمی سے پائوں جل رہے تھے مگر ایمان کی حرارت میں کچھ محسوس نہیں ہوا۔ طواف سے فارغ کرا کر معلم صاحب نے حرم کے نزدیک ایک کچے پکے مکان میں الگ الگ کمروں میں 4,4مرد اور 4,4خواتین کو ٹھہرایا۔ کرایہ فی حاجی 300ریال وصول کیا جو پورے ایک ماہ کے قیام کے لئے لیا گیا تھا کیونکہ اس زمانے میں حاجی 45دن کے حج ویزے پر جاتے تھے۔ ایک ریال صرف 3روپے کا ہوتا تھا، یہاں بھی کچے پکے مکانوں کی قطار میں سڑکیں بھی کچی تھیں۔ پورے مکان میں صرف 2چولہے تھے جن پر تقریباً 50حاجیوں کی بیگمات باری باری پکاتی تھیں اور روزانہ کی سبزیاں، گوشت اکٹھے خرید کر آپس میں حساب کتاب مرد حضرات کر لیتے تھے، ایک ماہ میں تقریباً 400ریال حساب بنا گویا 700ریال میں فی حاجی نے مکہ مکرمہ کے قیام کا خرچہ اٹھایا تھا۔ البتہ حرم کے سامنے پاکستانی کھانا ایک ریال فی پلیٹ سبزی، 2ریال کا گوشت اور روٹی مفت ملتی تھی جو نان بائی ٹائپ کا ہوٹل چھپرے میں ہوتا تھا۔ اہل مکہ حرم کے سامنے زمین پر سامان رکھ کر حاجیوں کو فروخت کرتے تھے۔

اذان کی آواز سن کر کپڑے سے ڈھک کر نمازیں ادا کرتے تھے، پھر واپس آکر کپڑا ہٹا کر کاروبار میں مصروف ہو جاتے تھے، بہت مول تول ہوتا تھا۔ حج کا دوسرا رکن منیٰ اور عرفات جانا تھا۔ ایک بس عورتوں کی اور ایک بس مردوں کی ساتھ ساتھ روانہ کی جاتی تھی، چھت پر سامان اور پانی کے 50لیٹر والے کنٹینرز بھر کر رکھے جاتے تھے کیونکہ منیٰ اور عرفات میں پانی کی قلت تھی۔ حج کے ارکان پورے کرنے کے بعد قربانی کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ ایک تالاب نما قربان گاہ حکومت نے مختص کر رکھی ہے۔ چھوٹے چھوٹے یمنی بکرے جو بمشکل 7آٹھ کلو کے ہوتے تھے۔ 30چالیس ریال میں خرید کر قصاب کے حوالے کر دئیے جاتے تھے جو اس پر چھری پھیر کر تالاب میں ڈال دیتا تھا، بس قربانی ہوگئی۔ اب واپسی پھر مکہ مکرمہ، حرم میں طواف اور تین دن کا قیام، عرفات سے منسلک منیٰ میں خیموں میں معلم ٹھہراتا تھا اُس کے لئے 50ریال رہائش اور بس کا کرایہ فی حاجی وصول کیا جاتا تھا۔ حج سے فارغ ہو کر 40نمازیں حج سے پہلے یاحج کے بعد ادا کر لیتے تھے۔ معلم ہی تقریباً 150ریال وصول کر کے واپس مدینہ کی زیارتیں کروا کے جدہ ائیر پورٹ پر 24گھنٹے قبل لاتا تھا، حاجی ائیر پورٹ کے انہی بنچوں یا زمین پر رات گزرتے تھے۔ پاسپورٹ جو معلم کے ہی پاس رہتا تھا اب وہ واپس کر کے ہوائی جہاز سے جانے والے حاجیوں کو چڑھا کر اپنی ڈیوٹی پوری کرتا تھا، پورا حج ایک ہزار ریال میں ہو جاتا تھا۔ لکھنے کا مطلب یہ کہ سعودی عرب صرف حرم شریف کا رکھوالا تھا، جو حاجی صاحبان اور عمرہ زائرین کی آمدورفت پر انحصار کرتا تھا۔ مکہ کا قبرستان جنت المعلیٰ شہر سے باہر ہوتا تھا اور اب شہر کے درمیان آگیا ہے اور مدینے کا قبرستان جنت البقیع شہر کے درمیان میں تھا اور آج مسجد نبویؐ سے متصل ہو چکا ہے۔ اتنا کچھ لکھنے کا مطلب اپنے قارئین کو 50سال پہلے خوشحال ترین پاکستان اور غریب ترین عرب کا موازنہ کرانا تھا۔ مکہ مکرمہ، جدہ اور مدینہ چند کلومیٹر تک محدود شہر شمار ہوتے تھے۔ آج وہ ترقی کی منزلیں طے کرتے بڑے شہروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جو ہزاروں ایک اسٹار سے لیکر5اسٹار ہوٹلز بڑی بڑی شاہرائوں بلند بالا عمارتوں پر مشتمل ہیں۔ سعودی حکومت نے زائرین کے لئے نئی نئی سہولتیں متعارف کرائیں۔ جدہ، مکہ، مدینہ کی الگ الگ 6سے 8لائن کی شاہراہیں سفر کو آسان کرنے ائیرپورٹ پر رش کو ختم کرنے کیلئے دن رات کوششیں جاری رکھیں۔ گزشتہ سال جدہ سے مکہ مکرمہ اور مدینے تک ریلوے لائنیں بچھا کر حاجیوں اور زائرین کے لئے آسانیاںپیدا کیں، راقم بھی اکثر عمرے اور حج کیلئے آتا جاتا رہا اور ان کی ترقیوں کا مشاہدہ کرتا رہا۔ اس سال ماہ رمضان میں عمرہ کیلئے آیا اور مکہ سے مدینہ اسی ٹرین میں سفر کیا۔ فی الحال ایک دن میں 5سے 7ٹرینیں چل رہی ہیں جو تجرباتی ہیں۔ بے حد خوبصورت ریلوے اسٹیشن مکمل ائیر کنڈیشنڈ اوربے حد کشادہ ہیں۔ ایک گھنٹہ قبل ریسپشن میں مسافروں کو آرام دہ کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے پھر یہ سامان نیچے پلیٹ فارمز پر لایا جاتا ہے، صرف پیشگی بکنگ والے اپنے اپنے کمپارٹمنٹس میں جاکر نمبر لگی سیٹوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ فی الحال 2کلاسیں متعارف کرائی گئی ہیں۔ عوامی کلاس یعنی اکانومی کلاس کا کرایہ 150ریال فی کس اور فرسٹ کلاس کا کرایہ 250ریال فی کس ہے، جو بقول مسافروں کے زیادہ ہے کیونکہ ٹیکسی والے مکہ سے مدینہ 50ریال فی کس وصول کر کے منزل مقصود پر پہنچاتے ہیں۔ البتہ اس میں 5گھنٹے لگتے ہیں مگر ٹرین میں جدہ سے مکہ صرف تین گھنٹے میں آرام سے مسافر پہنچ جاتے ہیں۔ اس ٹرین میں کھانے پینے کی سہولتیں بھی ہیں، آپ خود بھی ایک کھانے کی بوگی میں جاکر خرید سکتے ہیں یا پھر وقفے وقفے سے ان کے وینڈر ٹرالیوں پر کھانے پینے کا سامان فروخت کرتے ہیں۔ اگر آپ آرام سے مکہ، مدینہ، جدہ آنا جانا چاہیں تو ٹرین کا سفر بہت بہتر ہے۔ اب آپ ہماری ٹرینوں کا موازنہ کریں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے، ہم کہاں تھے اور آج کہاں ہیں، سعودیہ کہاں تھا اور آج کہاں ہے۔

تازہ ترین