• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں روپے کی قدر بلا توقف نیچے گرتی جا رہی ہے اور اس کے انجام کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔ غالباً یہ انٹر نیشنل مانٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کی شرط تھی کہ روپے کی قیمت کو کسی سطح پر مستحکم کرنے کیلئے پاکستانی حکومت دخل اندازی نہ کرے۔ اس کے پس منظر میں معیشت دانوں کے کچھ مفروضے ہیں، مفروضے بھی نہیں اعتقادات ہیں۔ ان میں سے اولین یہ ہے کہ منڈی ہر شے(بمعہ کرنسی) کی حقیقی قدر و قیمت مقرر کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ منڈی طلب اور رسد کی طاقتوں کے میل جول سے ایک متفقہ قیمت مقرر کر لیتی ہے۔ اسی سے ماخوذ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ جب کسی شے(بمعہ کرنسی) کی قیمت کم ہو جائے تو اس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ ان سارے مفروضوں کو آقافی سچائی تصور کیا جاتا ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

دوسرے مفروضے کے تحت روپے کی قیمت کم ہونے سے عالمی منڈی میں پاکستان کی اجناس و مصنوعات سستی ہو جانا چاہئیں اور ان کی طلب بڑھ جانا چاہئے یعنی پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہئے۔ اسی اصول کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ درآمدات مہنگی ہو جانا چاہئیں اور ان کی طلب میں کافی کمی آجانا چاہئے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قیمت کم بھی ہو جائے تو پاکستان کے پاس ایسی اجناس اور مصنوعات ہیں ہی نہیں کہ اس کی برآمدات بڑھ سکیں۔ دوسری جانب پاکستان کی درآمدات کی نوعیت ایسی ہے کہ ان میں بہت زیادہ کمی کی نہیں جا سکتی۔ پاکستان چائے سے لے کر کاروں کے پرزے اور صنعت میں استعمال ہونے والے خام مال یا اجزاء کے لئے دوسرے ملکوں پر انحصار کرتا ہے۔ اس لئے نہ برآمدات میں اضافہ ہوا اور نہ ہی درآمدات میں کمی واقع ہوئی۔ لہٰذا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ نام نہاد معیشت دانوں کی آفاقی سچائی کا پاکستان پر اطلاق نہیں ہوسکا۔

آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ہوگا یا ہونا چاہئے کہ آخر روپیہ اپنی قدر و قیمت کیوں کھو رہا ہے؟ اس کا سادہ اور سیدھا جواب یہ ہے کہ جب خزانہ دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ کر منڈی میں پھینک رہا ہو تو ان کاغذ کے ٹکڑوں کی قدر میں گراوٹ آنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اور کاغذ کے ٹکڑے اس لئے چھاپنے کی مجبوری ہے کہ ریاست پاکستان کو بینکوں سے دھڑا دھڑ قرضے لینا پڑتے ہیں اور قرضے اس لئے لینا پڑتے ہیں کہ صاحب حیثیت لوگ اپنی آمدنیوں اور جائیدادوں پر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

زمانہ قدیم سے یہ طے ہے کہ چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں سے لے کر بڑی بڑی سلطنتیں لوگوں سے لئے گئے ٹیکسوں پر ہی چل سکتی ہیں۔ یہ ہے آفاقی سچائی جس کا تعلق معیشت دانوں کی شعبدہ بازیوں سے کم اور سیاسی حکمرانی سے زیادہ ہے۔ اس بنیادی حقیقت کی نفی کرتے ہوئے پیشہ ور معیشت دانوں کی خدمات حاصل کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنی مصیبتوں کے حل کے لئے جادو ٹونے اور تعویذ گنڈے کرنے والوں کا دروازہ کھٹکھٹانا اور ہمارے معیشت دان بھی ٹونے جادو کرنے والوں کی طرح اپنا روزگار چلانے کے لئے بڑے سنجیدہ مشوروں کا ڈرامہ رچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاریخی سچ یہ ہے کہ معیشت کے خود مختار منڈیوں کے ذریعے چلنے والے پہیے سے یورپ اور امریکہ کے عظیم معاشی بحران(ڈپریشن) کے وقت ہی ہوا نکل گئی تھی۔ یہ روز روشن کی طرح واضح ہو گیا تھا کہ اگر منڈیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ معیشت کو برباد بھی کر سکتی ہیں۔ اسی لئے جان مینیرڈ کینز نے حکومتی مداخلت کا نظریہ پیش کیا تھا جس پر 1980تک عمل ہوتا رہا اور صنعتی معیشتوں نے خاطر خواہ ترقی کی۔ اس نظریے کے حد سے زیادہ استعمال سے گونا گوں مسائل پیدا ہوئے جن کے نتیجے میں رونلڈ ریگن نے دوبارہ منڈیوں کی خود مختاری کا ڈرامہ رچایا اور اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوئے۔ پاکستان میں تو اس نظریے پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ایسا عمل کروایا کہ تعلیم جیسا شعبہ بھی منڈی کے حوالے ہوگیا حالانکہ اس سے امریکہ تک میں بھی احتراز کیا گیا ہے۔ اگرچہ اب پھر آئی ایم ایف کے ٹونے جادوگروں نے اپنے پاکستانی چیلوں کو نئے جنتر منتر پڑھائے ہیں لیکن یہ بہت کار آمد نہیں ہوں گے۔ غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکس بڑھانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ریاضی اور الجبرے کے مشکل فارمولوں کے استعمال سے ایک جعلی سائنس کا تاثر دینے سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ معاشیات کا علم سرمایہ داری نظام کو منطقی اور جائز ثابت کرنے کے لئے مرتب ہوا تھا۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں چار ذاتوں کی تقسیم کو فطری ثابت کیا جاتا تھا اور یہ عقیدہ ہزاروں سال تک چلتا رہا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں ایک بالکل نئی طرز کا سرمایہ داری نظام ابھر کر سامنے آچکا ہے جس کی تفسیر معاشیات کے پرانے ماڈلوں کے ذریعے ممکن نہیں رہی: بقول مشہور امریکی معیشت دان پال کروگمین عالمی معاشی نظام کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔ فرانسیسی معیشت دان تھامس پکٹی نے ’کیپیٹل ان دا ٹونٹی فرسٹ سنچری‘ میں نئے اعداد و شمار کی مدد سے بنیادی معاشی سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا نظریہ بھی نئی معیشت کی تفسیر کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا میں تمام پرانے فارمولے نئی طرز پیداوار اور تقسیم دولت کے نظام کے سلسلے میں بے معنی ہو چکے ہیں۔ موجودہ دور میں معاشیات ہی نہیں تمام سماجی علوم شدید بحران کا شکار ہو چکے ہیں اور علم کے نئے افق کہیں نظر نہیں آ رہے۔ یہ دورِ جدید کا سب سے بڑا بحران ہے۔

حرف زائد:پاکستان میں بجلی کے ساتھ ساتھ گیس میں بھی گردشی قرضوں کا انبار لگنا شروع ہو چکا ہے لیکن کسی پاکستانی معیشت دان نے اسکی پیش گوئی نہیں کی تھی: جنتر منتر سے کام چلانے والوں کو مستقبل نظر نہیں آسکتا۔

تازہ ترین