• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم حادثات کے دور میں زندہ ہیں، حادثات بھی ایسے کہ معمہ بنتے جا رہے ہیں۔ کسی کا سراغ ملتا ہے تو مٹا دیا جاتا ہے اور کسی کا تو سراغ بھی نہیں ملتا ،روایات تبدیل ہو گئی ہیں۔ پہلے جہاں خلوص اور محبت تھی اب وہاں ہوس اور دولت آن بسے ہیں۔ افسران کی اکثریت صبح شام خوشامد کے سارے پتے کھیلنے پر تلی ہوتی ہے۔ میری طرح بہت سے لوگ سوچتے ہوں گے کہ اب وہ زمانے گئے جب افسران عوام کی خدمات کو سب کاموں پر فوقیت دیتے تھے اور لوگوں کے سکھ کیلئے کی جانے والی خدمت کو عبادت سمجھتے تھے۔ کبھی کبھی یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ نہ جانے فرض شناسی کہاں غائب ہو گئی ہے۔ امن کی جگہ بدامنی کیوں آ گئی ہے جہاں امن کے گیت گائے جاتے تھے وہاں موت آ بسی ہے۔ موت نے شہروں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے، چوری ،ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں کرنے والے نہ محرم کا احترام کرتے ہیں ،نہ رمضان کا اور نہ ہی ربیع الاول کا ۔ یہ احترام ہونا چاہئے مگر بصد افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ ہوس اور دولت کے اس بھرے بازار میں اب بھی چند سرپھرے ایسے ہیں جن کی زندگی کا مقصد مخلوق خدا کی خدمت ہے جو حکمرانوں کی ناجائز باتیں نہیں مانتے جن کا پختہ یقین ہے کہ روزی کا مالک کوئی زمینی حاکم نہیں بلکہ وہ خدائے لم یزل ہے جو سب کا پالن ہار ہے۔ ایسے چند افسران حکمرانوں کے ناپسندیدہ بن جاتے ہیں ،اعلیٰ افسران بھی ان سر پھرے افسران سے نالاں نظر آتے ہیں ۔ سر پھروں کے ہر راستے میں کوئی نہ کوئی بھاری پتھر ضرور ہوتا ہے ،کوئی نہ کوئی کٹھن مرحلہ ان کی زندگیوں میں ضرور آ جاتا ہے۔ بس یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو ان کے لئے آزمائش کی گھڑی بن جاتا ہے۔ اس آزمائش کی گھڑی کو عبور کرتے وقت کبھی انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ،کبھی معطلی مقدر بن جاتی ہے ،کبھی اعلیٰ سطحی افسران کی ناراضی نصیب ہوتی ہے۔ ناراضی کے اس عالم میں انہیں رعب داب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اب ایک اور چیز کا اضافہ ہو گیا ہے اس چیز کو موت کہا جاتا ہے یعنی اب اصولوں پر کاربند رہنے کی ایک قیمت موت کی صورت میں بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ قیمت کامران فیصل کو بھی ادا کرنا پڑی۔ میاں چنوں کے کامران فیصل کو کیا پتہ تھا کہ اسلام آباد کے پھولوں، سبزے اور خوبصورتی میں موت بھی چھپی ہوئی ہے۔ اسے یہ بھی خبر نہیں تھی کہ موت آتے وقت یہ بھی نہیں دیکھتی کہ کسی کی کیا عمر کیا ہے۔ کسی کا خاندان کس قدر پریشان ہو گا ۔ موت کے اندھے رخ نہ امارت دیکھتے ہیں نہ غربت اور نہ ہی افسری یا نوکری کی پروا کرتے ہیں۔ برادر عزیز عمر چیمہ نے بڑی محنت سے کامران فیصل کے آخری پیغامات کو رپورٹ کیا ہے۔ دل دہلا دینے والے یہ سندیسے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کس قدر دباؤ میں تھا، اس کے دل سوز پیغامات پڑھنے کے بعد جگر تھامنا مشکل ہو جاتا ہے کہ خوشنودیوں کے طالب اعلیٰ افسران کس کس انداز میں اپنے جونیئرز پر دباؤ ڈالتے ہیں۔میں عمران خان کی ان باتوں کو ابھی تک نہیں بھولا جو اس نے کامران فیصل کی موت کے ایک روز بعد کی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مضبوط اعصاب کے مالک عمران خان نے متعدد مرتبہ بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، اس کی دو بیٹیاں ہیں، اس کا قصور کیا تھا ؟“ مجھے کسی کی خطاؤں کا تو علم نہیں مگر اتنا ضرور پتہ ہے کہ پاکستان میں یہ رواج بنتا جا رہا ہے کہ ثبوت مٹانے کیلئے جتنی بھی جانوں سے کھیلنا پڑے کھیل دیا جاتا ہے۔ کامران فیصل کے پیغامات اس کے عشق نبی کی وضاحت بھی کرتے ہیں ۔آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو اس سے اگلے روز بارہ ربیع الاول ہو گی۔ ہم من حیث القوم اس یادگار تاریخی اور مبارک دن سے چند دن پہلے کونسا پیغام دے رہے ہیں۔ ایک لمحے کیلئے رکئے اور سوچئے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنا کونسا ”چہرہ“ پیش کر رہے ہیں۔
خواتین و حضرات !افسر دیانتدار ہو تو نڈر بھی ہوتا ہے اور اگر نڈر ہو گا تو اس کے اصول بھی ہوں گے وہ کسی سیاسی دباؤ کا شکار بھی نہیں ہو گا حال اور ماضی قریب میں اس کی کئی مثالیں ہیں مثلاً کچھ سال پہلے آگ میں جلتے ہوئے کراچی کو ڈاکٹر شعیب سڈل نے امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ اس امن کی خاطر ڈاکٹر صاحب کو کئی ایسے لوگ مارنا پڑے جو امن کے دشمن تھے۔ انہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے کئی ہڈیوں کو درست کرناپڑا ۔ بالکل اسی طرح ذوالفقار چیمہ نے لوگوں کو سکھ پہنچانے کی غرض سے لوگوں کو دکھ دینے والوں کا صفایا کر دیا۔ لوگ ذوالفقار چیمہ کے اقدامات پر خوش نظر آئے ۔گوجرانوالہ کی دھرتی نتھو گورایہ کے نام سے کانپتی تھی۔ بھلا ہو سید علی محسن کا جس نے معاشرے کے اس برے کردار کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس نے سید علی محسن کی قیمت لگانے کی پوری کوشش کی مگر اس کی ہر کوشش اور ہر خواہش سید علی محسن کے سامنے اس وقت ڈھیر ہو گئی جب دیانتداری، فرض شناسی اور دلیری سے جھکنے سے انکار کر دیا۔سرگودھا کے ڈی پی او ڈاکٹر رضوان اور جہلم کے ڈی پی او دار علی خٹک نے اپنی دیانت اور فرض شناسی کے باعث شہرت پائی ہے ان دونوں نے بھی معاشرے کے گھناؤنے کرداروں کو چن چن کر ٹھکانے لگایا ہے۔ ایسے اور بھی پولیس افسران ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا لوگوں کی بھلائی ہے ان میں آفتاب چیمہ، کیپٹن محمد امین وینس، عابد قادری اور طارق مسعود یاسین شامل ہیں۔آفتاب چیمہ اور عابد قادری کے سخت رویّے کے پیچھے دیانتداری بولتی ہے۔ یہ افسران ناجائز سفارشات ماننا گناہ سمجھتے ہیں۔ میں نے ایک ایس پی اشفاق خان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری قبر میں نہ میرا باپ جائے گا نہ کوئی اور رشتہ دار، لہٰذا میں کسی کی سفارش کیوں مانوں۔ فرض شناسی میں طیب حفیظ چیمہ بھی پیچھے نہیں ہیں انہوں نے بھی معاشرے کو پاک کرنے کی ٹھان رکھی ہے یہی حال اختر عمر حیات لالیکا کا ہے یہی خواہش میاں جاوید اسلام اور امجد جاوید سلیمی کی ہے ایک سابق پولیس افسر میجر فتح شیر جوئیہ بھی اسی چلن کے تھے۔ سندھ میں ڈی آئی جی امیر شیخ اور ایس پی ثاقب سلطان معاشرے کو امن فراہم کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا میں ایڈیشنل آئی جی لیاقت علی خان اپنی مثال آپ ہیں۔ نوجوان اے ایس پی فیصل چاچڑ کی زندگی کا مشن بھی جہاد ہی ہے۔ دیانتداری کے آئینے میں سرشار سرویا، زبیر دریشک اور رائے الطاف کا نام بھی چمکتا ہے، رائے اعجاز اور رائے بابر کی شہرت بھی عمدہ ہے۔پورے پاکستان میں یہ وہ چنیدہ افسران ہیں جنہیں خوف گھائل نہیں کرتا ۔ ان کے سامنے دولت ہار جاتی ہے رعب و دبدبہ ختم ہو جاتا ہے مگر ایک حقیقت ہے کہ ا ن چنیدہ پولیس افسران کے سامنے پہاڑ جتنے مسائل ہیں۔ جرائم کا پورا مافیا ہے اور یاد رہے کہ اس راستے میں موت بھی آتی ہے۔ کامران فیصل بھی اسی راستے کا مسافر تھا۔
تازہ ترین