• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

صفحات بڑھ گئے

اس مرتبہ تو ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رفیق مانگٹ کا کرائسٹ چرچ سانحے پر بہت ہی عُمدہ اور تفصیلی مضمون پڑھنے کو ملا۔ بہت اچھا اور کافی محنت سے لکھا گیا تھا۔ اشاعتِ خصوصی میں شیلٹر ہوم پر شگفتہ بلوچ کی تحریر بھی خاصی اچھی تھی۔ سرِورق پر ماڈل، بیگز کے ساتھ خُوب جچ رہی تھی تو ہمارے ہر دل عزیز منور مرزا نے بھارتی انتخابات پر نہایت ہی جان دار مضمون لکھا۔ نئی کتابیں میں کتابوں کے تعداد کچھ کم تھی اور صد شُکر کے میگزین کے صفحات ایک بار پھر بڑھ گئے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی،کراچی)

ج: زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، صفحات کی تعداد میں اضافہ اشتہارات سے مشروط ہے، چوں کہ اشتہارات بڑھ گئے تھے، تو صفحات کی تعداد بھی بڑھ گئی۔

’’پیٹو‘‘ سمجھتی ہیں؟

’’پیارا گھر‘‘ میں یہ کھانا پکانے کی ترکیبیں کیوں شایع ہوتی ہیں، کیا عوام کا واحد مسئلہ کھانا پکانا اور کھانا کھلانا ہی رہ گیا ہے۔ آپ پاکستان کے عوام کو اتنا پیٹو سمجھتی ہیں کہ وہ بس ہر وقت کھانے کے بارے ہی میں سوچتے رہتے ہیں۔ پیارے گھروں میں بریانی، قورمے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اور براہِ مہربانی پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کے خطوط کے جواب ضرور دیا کریں۔ اس بار آپ نے پروفیسر صاحب کو جواب سے محروم رکھ کے بڑی زیادتی کی اور چاچا چھکّن سے اُن کا اصل نام بھی پوچھیں۔ (نواب زادہ خادم ملک ، سعید آباد، کراچی)

ج: دل تو بہت کرتا ہے، آپ کے ساتھ بھی یہی رویّہ (جواب نہ دینے والا) اختیار کرنے کو، مگر ہر بار آپ کی بونگیاں کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبور کرہی دیتی ہیں۔ اور پاکستانی قوم کے پیٹو ہونے پر بھلا کیا شبہ ہے۔ صرف رمضان المبارک ہی میں حال دیکھ لیں، لگتا ہے زندگی کا مقصد ہی صرف کھانا پینا ہے۔ جہاں درس گاہیں ڈھا کر فوڈ اسٹریٹس بنادی جائیں، جس قوم پر اربوں کا قرض چڑھا ہو، مگر دستر خوان اور توندیں بڑھتی ہی چلی جارہی ہوں، وہ قوم ’’پیٹو‘‘ نہیں کہلائے گی، تو کیا کہلائے گی۔

ہرا بھرا سنڈے میگزین

ادبی، معاشرتی، معلوماتی مندرجات سے ہرا بھرا سنڈے میگزین دل و جان کے لیے ’’روح افزا‘‘ کے مثل ہے۔ تمام ہی سلسلے اپنی اپنی جگہ مثالی ہیں۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ہم سا ہو تو سامنے آئے !!

تمام مضامین پر طائرانہ نظر ڈالی (چوں کہ مجھ پر الہام نہیں ہوتا، تو سرسری نظر سے تو دیکھنا ہی ہوتا ہے)۔ اس مرتبہ ناقابلِ فراموش کی کہانیاں دل کو بھائیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں میری تحریر چَھپی تھی تو پھر تو کیا ہی کہنے۔ ڈاکٹر فائزہ سے گفتگو بھی کافی معلوماتی تھی۔ ماڈل اور ملبوسات مناسب سے لگے۔ اقبال ؒ کے بچپن کے واقعات پہلے بھی پڑھ رکھے تھے، ایک بار پھر دل چسپی سے پڑھ لیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پُوت کے پائوں پالنے ہی سے نظر آجاتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں اقبالؒ جیسا دیدہ وَر ملا۔ ’’قصص الانبیاء‘‘ کا جواب نہیں۔ واقعات کا ایک دریا ہے، جسے محمود میاں نجمی تسلسل سے بہائے جا رہے ہیں۔ گزرے وقتوں کی گویا اِک تصویر سی کھینچ دیتے ہیں۔ انہی ’’اساطیرالاوّلین‘‘ میں ہمارے لیے بے شمار اسباق پنہاں ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر، راجہ صاحب کا راج پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے، وہ للکار رہے ہیں کہ ’’کوئی ہم سا ہو، تو سامنے آئے۔‘‘ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ (مصباح طیّب،سرگودھا)

ج: بظاہر تو راجہ صاحب بڑے منکسرالمزاج سے ہیں۔ اب اتنی بار راج دھانی سنبھال کر اگر گردن میں کوئی سریا وریاآجائے، اور باقاعدہ للکارنا شروع کردیں، تو کہہ نہیں سکتے۔

پڑھے بغیر گزارہ نہیں ہوتا

میری تحریر شایع کرنے کا بے حد شکریہ۔ ہم نے صرف اتوار کا اخبار لگوا رکھا ہے کہ ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ پڑھے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ آپ کا بہت ہی شان دار سلسلہ ہے۔ دیگر سلسلے بھی ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں۔ ’’سیاست کے مسنگ پرسنز‘‘ بہت لاجواب تحریر تھی۔ (محمد نواز تھہیم، سرگودھا)

کئی بار عقل کی بات

شمارہ اتوار کی سہانی صبح لطیف بنانے کے لیے جلوہ نُما ہے۔ مصرعے ’’کرکے سنگھار آئے، وہ ایسی ادا کے ساتھ…‘‘ نے سرورق کو خُوب جاذبِ نظر بنایا، لیکن سچ پوچھیں، تو ماڈل میں ایسی ادَا والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے اپنے سنہرے قلم سے حضرت یعقوب علیہ السلام پر ایک مہکتی نگارش روبرو کی۔ حالات وواقعات میں منور مرزا معاشی اقدامات کی بہتری کے تناظر میں کڑوا سچ بول رہے تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رفیق مانگٹ نے لوک سبھا 2019ء بھارتی الیکشن کےضمن میں3 صفحات پر مشتمل طویل تحریر عُمدگی سے قلم بند کی۔ متفرق میں ’’سیال کوٹ ٹی ہائوس‘‘ اور ’’بچپن ِ اقبال‘‘ پر تحاریر کو نفاست اور سلیقے سے سمیٹا گیا۔ سینٹر اسپریڈ کو نظر انداز کیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ماہرِ امراضِ اطفال، ڈاکٹر فائزہ جہاں سے خصوصی بات چیت توجّہ سے پڑھی۔ پیارا گھر میں جھانکا، تو وہاں ’’دنیا ایک امتحان گاہ‘‘ جیسی عُمدہ تحریر منتظر تھی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کے سُریلے تبصرے، کتابوں میں مطالعاتی دل چسپی مزید بڑھا دیتے ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خادم ملک نے پہلے بھی کئی بار عقل کی بات کی ہے۔ نہ کہ صرف اب۔ ہاہا ہاہا… ہاہا ہاہا… (ملک محمدرضوان،محلہ نشیمن اقبال،واپڈا ٹاؤن، لاہور)

ج: اچھا واقعی، تو پھر یقیناً آپ کے کان میں کی ہو گی کہ ہم نے تو کم از کم نہیں سُنی۔ ویسے’’ آپ کی دھواں دار ہنسی‘‘ تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہے کہ یقین آپ کو خود بھی نہیں۔

دو خطوط ایک ساتھ

میرا مختصر سا خط پیشِ خدمت ہے۔ حضرت یوسف ؑ کا قصّہ شان دار تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک درخواست لے کر آئی ہوں۔ آپ نے شہزادہ بشیر محمّد نقشبندی، میر پور خاص والے کے دو خطوط ایک ہی صفحے پر شایع کردیئے اور ہمارا ایک بھی نہیں، کیوں؟ (حافظہ عروبہ مرسلین، نارتھ کراچی)

ج: ان کے دو خط قصداً ایک ساتھ شایع نہیں کیے گئے تھے، بلکہ غلطی سے ہوگئے تھے، جب کہ آپ کا خط آج اراداتاً شاملِ اشاعت کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کیا سمجھیں…؟؟

’’تھوڑی جی خیر…‘‘

محمود میاں نجمی ’’قصص الانبیاء‘‘ میں جس طرح قصّوں کو نَپے تُلے اور آسان فہم انداز میں بیان کرتے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جیسے کہ حضرت لوط ؑ کے قصّے میں مجھ پر پہلی بار یہ آشکار ہوا کہ بحیرۂ مُردار کی اصل وجۂ تسمیہ کیا ہے؟ یہ کیسے، کیوں اور کہاں وجود میں آیا؟ بہت خُوب!! رفیق مانگٹ نے نیوزی لینڈ میں وقوع پزیر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کو بڑی درد مندی اور دل سوزی سے سپرد قلم کیا۔ ’’تبدیلی سرکار‘‘ کے شیلٹر ہوم کا ڈراما ملتان کی لکھاری نے ’’خواہ مخواہ‘‘ قابلِ تحسین گردانا۔ اس سے کیا ہو گا؟ اس طرح کتنے لوگوں کو جائے پناہ نصیب ہو جائے گی۔ سب ’’ٹوپی ڈرامے‘‘ ہیں۔ 3؍مارچ کے شمارے میں ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ پر مکمل اظہارِ خیال کیا گیا اور اب پھر4 ؍اپریل کے شمارے میں شامل ہے۔ تو کیا باقی سب بیماریاں ختم ہوگئیں۔ اس بار منور مرزا بھارتی انتخابات کے اُفق پر طلوع ہوئے۔ ہمارے لیے تو اور بھی غم ہیں۔ 21؍اپریل کے شمارے میں نجمی میاں نے حضرت یعقوب ؑ کے قصّے کو اتنے اعلیٰ و ارفع طور پر لکھا کہ واللہ اس معاملے میں میرا علم بالکل ناقص تھا۔ حضرت یعقوب ؑ کا بہ یک وقت دوسگی بہنوں سے رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہونا (کہ اُس وقت اس امر کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تھا)میرے لیے انکشاف ہی تھا۔ اس ضمن میں نجمی صاحب کا بےحد ممنون ہوں۔ اس دفعہ پھر بھارتی الیکشن نے تین چار صفحوں کا ناس مار دیا، البتہ ڈاکٹر فائزہ جہاں کا انٹرویو خوش گوار جھونکے کی مانند تھا۔ مصباح طیب کا دنیا پر نشتر ایک اچھی اور برمحل تنبیہ ہے۔ اور ہاں ’’نادرو عجوبہ‘‘ ناقابلِ اشاعت کا بھی گاہے گاہے دیدار کروا دیا کرو تاکہ لکھاریوں کو ان کے اعمال (تحاریر) کےچَھپنے کی’’جزا‘‘اورنہ چَھپنے کی ’’سزا‘‘ باقاعدہ ملتی رہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خلعت ِ فاخرہ کے لیے اِک واری فیر ’’سلیم راجہ ویر‘‘۔ کدی ساڈے پیالے وِچ بھی پادیو، تھوڑی جی خیر۔ کی خیال ہے…؟؟ (ڈاکٹر اطہر رانا، طارق آباد، فیصل آباد)

ج: آپ کا خط لگ بھگ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ جتنی ہی جگہ لے جاتا ہے۔ اور پیالے میں کتنی خیر چاہیے۔ اور ’’قصص الانبیاء‘‘ میں حضرت لوط ؑ کا قصّہ ذرا دوبارہ پڑھ لیجیے گا۔ آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے۔ (جسے خط سے بھی ایڈٹ کردیا گیا) حضرت لوطؑ کے والد، ہاران حضرت ابراہیم ؑ کے سگے بھائی تھے، نہ کہ خود حضرت لوطؑ۔ حضرت لوط ؑ تو حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے۔

ہنسی نہیں رُکی

واہ بھئی واہ، نرما کا انٹرویو پڑھ کر تو ہنسی نہیں رُک رہی تھی۔ بہت ہی دل چسپ و عجیب انٹرویو تھا۔ (خوش فہمیاں ہوں، تو ایسی ہی ہوں) ایسا ہی ایک انٹرویو اداکارہ میرا کا بھی شامل ِ اشاعت کیجیے،مزہ آجائے گا۔ بہرحال، سنڈے میگزین اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اپریل کے سیکنڈ لاسٹ شمارے میں مصباح طیّب کا مضمون ’’دنیا ایک امتحان گاہ‘‘ شمارے کا نچوڑ تھا۔ انہوں نے بالکل صحیح لکھا، پرچہ اچھا ہوگا، تو نتیجہ بھی اچھا ہی آئےگا۔ پچھلے ایک دو شماروں سے رفیق مانگٹ چھائے ہوئے ہیں۔ اُن کے قلم میں طاقت اور خیالات میں جدّت بھی ہے۔ اُمید ہے، سنڈے میگزین کا سفر یونہی جاری و ساری رہے گا۔ (سمیع عادلوف، جھڈو، ضلع میرپور خاص)

ج: اِن شاء اللہ تعالیٰ۔ اُمید تو ہمیں بھی ہے۔ اور نرما تو شاید آپ کے یہ طنز بھرے جملے سہ بھی جائیں، مگر میرا… وہ نان اسٹاپ انگریزی ہی نہیں بولنا شروع کردیتیں، کبھی کبھی ہاتھ بھی چھوڑ دیتی ہیں۔

بھانت بھانت کی بولیاں

ایک بار پھر حاضر ہوں اور سب سے پہلے تو آپ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اس بار محمود میاں نجمی کی تحریر ایسی جگہ شایع کی، جہاں کوئی اشتہار نہیں تھا اور اس طرح گویا بھانت بھانت کی بولیوں کا منہ بند کر دیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’مہمان داری، مہمان نوازی‘‘ بہت اچھی تحریر تھی۔ ایسے ہی روایات کو زندہ رکھتی رہیں۔ کوئی تو ہو، جو ریتوں روایتوں کی زندگی کا ضامن بنے۔ (شبوشباد شکارپوری، الامین سٹی، ملیر ،کراچی)

ج: پتا نہیں، بولیاں بند کی ہیں یا نت نئی بولیوں کو راہ دکھا دی ہے۔ یہ قوم کسی بھی طور چُپ بیٹھنے والی تو نہیں۔

وزیرِ بے روزگاراں کا خطاب

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ شُکر ہے دونوں کی ابتدا ’’سر چشمہ ہدایت‘‘ کے صفحات سے ہوئی۔ یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ نیوزی لینڈ میں انسانیت کی جیت ہوئی ہے اور وہاں کی وزیراعظم، جیسنڈا آرڈرن نے اسلامی دنیا میں اپنا اور مُلک کا نام معتبر کرلیا ہے۔ جسے اب رہتی دُنیا تک اسلامی دُنیا بُھلا نہیں پائے گی، امریکا کو بھی ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ جنوبی پنجاب کا پہلا شیلٹر ہوم ملتان میں قائم کردیا گیا ہے۔ ہم وزیراعظم سے گزارش کریں گے کہ وہ پاکستان کے ہر ضلعی صدر مقام پر ایسے شیلٹر ہومز بنائیں تاکہ غریب عوام زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔’’اسٹائل‘‘میں ماڈل نےجو رنگارنگ پرس تھام رکھے تھے، اُن میں کوئی رقم شقم بھی تھی یا خالی ہی تھے۔ معروف ماہرِ امراض ِ اطفال ڈاکٹر فائزہ جہاں نے کیا خُوب کہا کہ ’’اولاد کے لیے حفاظتی ٹیکوں سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ اور نواب زادہ خادم ملک صاحب!ہم محمّد سلیم راجا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آپ کو ’’وزیر بے روزگاراں‘‘ کا خطاب عنایت فرمادیں اب آپ خوش۔ (پرنس افضل شاہین، ڈھاباں بازار، بہاول نگر)

ج: تو اس خطاب سے کیا اُنہیں روزگار میسّر آجائے گا۔ ارے بھائی، اُن کا اصل مسئلہ بے روزگاری ہے۔ آپ نے تو وہی کام کیا ہے، جو موجودہ حکومت کررہی ہے۔ کبھی ٹی بی یا سرطان کا علاج بھی نزلہ زکام کی دوا سے ہوا ہے۔ اور رہی بات، ماڈل کے خالی بیگز کی، تو آپ اپنی بہن کے لیے عیدی بھجوا دیں، ہم اُن تک پہنچا دیں گے۔

میگزین مختصر کیوں؟

کافی دنوں سے آپ سے مخاطب ہونے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ بس یہ زندگی اور اِس زندگی کی گہما گہمیاں، مصروفیات۔ آج کل تو کچھ اپنا بھی پتا نہیں ہوتا۔ خیر، پچھلے دنوں اِک تحریر بھیجی تھی، ’’انتہا پسندی‘‘ کے موضوع پر۔ نہ معلوم کیا ہوا، ہنوز انتظار باقی ہے۔ میگزین اس قدر مختصر کیوں ہو گیا ہے۔ اللہ خیر ہی کرے۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)

ج: تحریر تو آپ کی ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست میں جگہ بنا چُکی ہے اور میگزین مختصر ہونے کا بھی خُوب پوچھتی ہیں۔ مُلک کی اقتصادی و معاشی حالت کسی سے پوشیدہ ہے اور اس وقت جو حالت مُلک کی ہے، اُس سے کہیں بدتر مُلکی اداروں کی ہے اور یہ تو ابھی صرف نو ماہ کی ’’تبدیلی‘‘ کا اعجاز ہے۔ آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔

کچھ اوربھی خاص

سنڈے میگزین پڑھا، جب علم ہوا کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط بھی شامل ہے، تو میگزین کچھ اور بھی خاص ہوگیا، جس پر آپ کا بےحد شُکرگزار بھی ہوں۔ اس بار رئوف ظفر کی تحریر بہت پسند آئی۔ عالیہ کاشف نے بھی نرسز کے عالمی دن کے حوالے سے اچھی بات چیت کی، خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔ اور نرجس ملک صاحبہ! آپ کی تحریر کی تو کیا ہی بات ہے۔ بہت ہی جان دار اور دل کش ہوتی ہے۔ سعدیہ امام سے آپ کی بات چیت کا جواب نہ تھا، پڑھ کے بڑا لُطف آیا۔ (محمد علی، آستانہ بغدادی، گلشن کالونی، شیخوپورہ روڈ، گوجرانوالہ)

                                                                                       فی امان اللہ

                                           اس ہفتے کی چٹھی

مَیں ہوں صائمہ کنول ’’سنڈے میگزین‘‘ کی خاموش پرستار، تجزیہ کار، لیکن اب جو ہم کو امتحانات سے ملی فراغت، تو سوچا کیوں نہ آپ سے آدھی ہی سہی، ملاقات کے لیے کراچی چلیں۔ تو اب تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں عزت مآب نجمی صاحب ہمیں اپنے دادا جان جیسے شفیق لگتے ہیں۔ بہت عُمدگی سے ’’قصص الانبیاء‘‘ کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں۔ ان کی تعریف کرنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام پر مضمون خُوب تھا اور ان کا نقّالیٔ اغیار پر مسلمانوں کو اقبالؒ کے اشعار سے جھنجھوڑنا بھی بر محل لگا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رفیق مانگٹ ’’سانحہ کرائسٹ چرچ‘‘ پر کیوی وزیراعظم اور عوام کا مسلمانوں کے ساتھ حُسنِ سلوک بیان کر رہے تھے۔ واقعی؎ وہ ادائے دل بری ہو کہ نوائے عاشقانہ.....جو دِلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح ِ زمانہ۔ اللہ تعالیٰ! مسلمانوں کو اُن کو کھویا ہوا مقام لوٹا دے اور کیوی وزیراعظم کو ایمان کی دولت کہ اُن کا دل بہرطور نرم ہے۔ لیکن مسلمان اب تارکِ قرآن ہو کر خوار ہورہے ہیں۔ ’’اشاعت ِ خصوصی‘‘ میں شگفتہ بلوچ نے ’’جنوبی پنجاب کے پہلے شیلٹر ہوم‘‘ پر لکھا، ایک اچھی تحریر تھی اور اس بات کی عکّاسی بھی کہ حکومت کوئی احسن قدم اٹھائے، تو جنگ اور جیو اُس کا بھرپور خیر مقدم کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے کیا خُوب کہا ہے؎ کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں..... ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔ ویسے یہ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات اگر تو صنفِ نازک کے لیے شایع کیے جارہے ہیں، تو فوراً بند کردیئے جائیں، کیوں کہ اُن کی نسبت صنفِ کرخت زیادہ مستفید ہو رہی ہے اور وہ بھی ساٹھ ساٹھ سال کے بابے، کیا خیال ہے؟ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کی دونوں تحریریں اچھی تھیں۔ خصوصاً دوسری تحریر تو ’’نیم حکیمی خطرۂ ٔ جان‘‘ کا نچوڑ لگی۔ ’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا اُس دل کے کالے انسان کا تذکرہ لائے، جس کا نام سُن کر یا پڑھ کر ہی دل بدمزہ ہو جاتا ہے۔ سو، انہوں نے راہول گاندھی کو ’’اندھوں میں کانا راجا‘‘ قرار دے دیا، لیکن ہم تو اُن سے بھی نالاں ہیں کہ کشمیر کو آزادی کانگریس کے دورِحکومت میں بھی نہیں ملے گی۔ ہاں، کشمیر تو تب ہی آزاد ہوگا، جب کوئی ’’قائداعظم‘‘ جیسا عظیم لیڈر پیدا ہوگا۔ ’’متفرق‘‘ کی بھی دونوں تحاریر اچھی تھیں۔ نجم الحسن عطا کی تحریر حقائق پر مبنی اور قابلِ عمل لگی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مدثر اعجاز کی ٹین ایجرز سے متعلق تحریر مختصر مگر جامع تھی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ ہمیں کم ہی متاثر کرتی ہیں۔ کیوں کہ ہم کون سا خرید سکتے ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ پاکستانیوں کا اصل درست نمائندہ ہے کہ صرف پانچ فی صد پاکستانی ہی سلیقے قرینے سے کام کرتے ہیں۔ باقی تو بس ’’شگوفے‘‘ ہی ہیں، جو اپنی اُوٹ پٹانگ باتوں، بونگیوں اور سادگیوں سے ہنسنے ہنسانے کا ماحول بنائے رکھتے ہیں۔ (صدائے مسلمانان ِ عالم، صائمہ یونس، دھوپ سڑی، نارووال)

ج: چلو بھئی، سارہ کی شادی ہوئی، تو ہمیں اُس کی جانشین، اُسی کے ڈیرے سے مل گئی اور صرف صدائے کشمیر نہیں، صدائے مسلمانانِ عالم۔

                                        گوشہ برقی خُطوط

٭ صرف آپ کو سیلوٹ پیش کرنے کے لیے یہ ای میل کررہی ہوں۔ آپ نے ’’عورت آزادی مارچ‘‘ سے متعلق جو تحریر لکھی، وہ اتنی جامع، شان دار اور زبردست تھی کہ مجھ سے رہا ہی نہیں گیا۔ بہ خدا، دل پر دھرا بہت بڑا بوجھ ہلکا ہوگیا کہ صدشکر ہماری پڑھی لکھی خواتین میں بھی، ابھی ایسی باشعور خواتین کی کمی نہیں کہ جو جانتی ہیں کہ عورت کی حقیقی معراج کیا ہے، وگرنہ ان چند سرپھری، آزاد خیال خواتین نے تو ہم جیسی خواتین کو بھی کہیں منہ دکھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔ بہت دعائیں لی ہیں آپ نے۔ (حمنہ فرحت)

ج:ہمیں بس آپ لوگوں کی دعائوں ہی کی ضرورت ہے۔ اور یہ کیا کہا آپ نے کہ ’’ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا‘‘ جو حق اور سچ پر ہو، اسے تو ڈٹ جانا چاہیے۔ شرم سے منہ وہ چُھپائے، جو غلط ہو۔ ہم جو غلط کو غلط نہیں کہتے، تو یہی ہم غلط کرتے ہیں۔

٭ سنڈے میگزین کا ہر ہر صفحہ انتہائی شان دار ہوتا ہے، اسی لیے تقریباً تمام ہی گھر والوں کی پوری توجّہ اس پر مرکوز رہتی ہے۔ اور مجھے تو جریدے کا اس شدت سے انتظار رہتا ہے کہ بیان نہیں کرسکتی۔ (عائشہ طارق، لال پُل، گلشن پارک، لاہور)

٭ سنڈے میگزین کے لیے کوئی تحریر بھیجنے کا کیا طریقہ ہے۔ کیا پی ڈی ایف بھیجی جاسکتی ہے یا اِن پیج میں بھیجنا ضروری ہے؟ براہِ کرم تھوڑا گائیڈ کردیں۔ (عادل شاہ)

ج: بھیجنے کو تو لوگ کیا کیا نہیں بھیج رہے۔ ہماری درخواست تو یہی ہوتی ے کہ جو بھی تحریر ای میل کریں، وہ اِن پیج فارمیٹ میں کریں، تاکہ دوبارہ کمپوز نہ کروانی پڑے۔ پی ڈی ایف میں چوں کہ ایڈیٹنگ ممکن نہیں ہوتی، تو وہ نہ ہی بھیجیں تو بہتر ہے۔ ویسے ہم بحالتِ مجبوری، رومن کے علاوہ باقی تمام ہی فارمیٹس قبول کرلیتے ہیں۔

٭ صحافت کے شوق نے ایک بار پھر روزنامہ جنگ کو گھر کی زینت بنانے اور پڑھنے پر مجبور کردیا ہے۔ منوّر علی راجپوت کے اندازِ تحریر سے بےحد متاثر ہوں۔ اور گزشتہ دِنوں ’’آنٹی مارچ‘‘ کے حوالے سے بھی ایک شان دار نگارش نگاہ سے گزری۔ یقین کریں اس اشاعت نے سیروں خون بڑھا دیا کہ مذہب، رشتوں اور روایات کا پاس رکھتے ہوئے ایک عورت کی حقیقی ترجمانی یوں بھی کی جاسکتی ہے۔ اللہ کریم آپ کے قلم کو یوں ہی بہتر سےبہتر لکھنے کی سعادت تادمِ حیات عنایت فرماتے رہیں۔ آمین۔ (مولانا محمد اظہر عالم، پی آئی بی کالونی، لاہور)

                                              قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین