• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک کے آخری ایام طلوع ہوتے ہیں تو مدینہ منورہ کی ٹھنڈی خوشبو دار ہوائیں یاد آنے لگتی ہیں۔ یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ رمضان شریف میں کئی بار عمرے کی سعادت نصیب ہوئی، کئی بار مدینہ منورہ کے موسم کے مطابق گرم و سرد ہوائیں رگ و پے میں اتریں لیکن صبح خاص طور پر فجر کے وقت ہمیشہ ٹھنڈی ہوائوں نے استقبال کیا۔ دسمبر کی یخ بستہ راتیں اور سرد صبحیں بھی یاد آتی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ مدینہ منور ہ میں قدم رکھتے ہی انسان کو ایک عجیب سی مستی، جذب، یکسوئی اور لگن اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ اس لئے خارجی عوامل زیادہ متاثر نہیں کرتے۔ مکہ معظمہ کی مقدس سرزمین پہ قدم رکھتے ہی عظیم ترین ہستی کا رعب، دبدبہ اور خوف گھیر لیتا ہے جبکہ مدینہ منورہ میں کیفیت بدل جاتی ہے اور روح میں سرشاری، محبت اور رحمت کے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں۔ افطار کے بہت سے مناظر یاد ہیں لیکن مسجد نبویؐ کی ایک افطار کی یاد نجانے کیوں، رمضان کے مہینے میں ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔ پروگرام تھا چند دوستوں کے ساتھ مسجد نبویؐ کے اندر افطار کرنے کا اور ان دوستوں نے کچھ دیر پہلے پہنچ کر سفید چادر کی صف بھی بچھا دی تھی اور اس پر افطار کا سامان بھی رکھ دیا تھا۔ میں باب عثمان کے راستے مسجد نبویؐ کے احاطے میں داخل ہوا اور تیزی سے قدم اٹھاتا اندر جانا چاہتا تھا کہ دو خوبصورت معصوم بچوں نے مجھے پکڑ لیا۔ دونوں نے اجلے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے اور سر پہ عمامے سجا رکھے تھے، ایک نے میری قمیص کا دامن تھام لیا تو دوسرے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ دونوں بھائی اصرار کرنے لگے کہ میں افطاری ان کے ساتھ کروں۔ میں نے چاہا کہ انہیں پیار سے سمجھائوں کہ اندر میرے دوست میرے منتظر ہیں لیکن زبان دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ وہ اشارے سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھے اور میں ان کی کسی قیمت پر بھی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجبوراً ان کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے، انہیں اپنے ساتھ لگایا اور پیار کیا۔ انہوں نے مہمانوں کی افطاری کے لئے مسجد کے احاطے میں ایک لمبی سی سفید چادر بچھا رکھی تھی جس پر وہ مہمانوں کو لاکر بٹھا رہے تھے۔ افطاری کے لئے مدینہ منورہ کی کھجوریں، چنے، بادام، جوس اور آب زمزم رکھا تھا۔ اذان بلند ہوئی، ہم نے افطاری کی، نماز کے بعد دوستوں سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنی معذوری کی وضاحت کی۔ تمام حضرات کا کہنا تھا کہ یہ حضور نبی کریم ؐ کی رحمت کا سایہ ہے جس نے مدینہ منورہ کے لوگوں کو بہت مہمان نواز اور نرم دل بنا دیا ہے اگرچہ مدینہ منورہ کے لوگوں نے ہجرت نبویؐ کے موقع پر بھی یادگار ایثار اور مہمان نوازی کی داستانیں رقم کیں۔

چند دنوں کے بعد ہم عمرے کی ادائیگی کے لئے مکہ معظمہ میں تھے۔ مکہ معظمہ صدیوں سے بلکہ روزِ اول سے اللہ کا گھر اور ’’خانہ کعبہ‘‘ ہے۔ خشک پہاڑیوں کے درمیان حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کی برکت سے تاریخ کی نگاہوں نے اسے آباد ہوتے اور مکہ معظمہ بنتے دیکھا ہے لیکن نجانے کیوں رحیم و کریم رب کے گھر کی موجودگی کے باوجود اہل مکہ اتنے مہمان نواز اور نرم خو نہیں جتنے اہل مدینہ ہیں۔ میں ہمیشہ مکہ معظمہ میں قدرے سہما سا رہتا ہوں لیکن مدینہ منورہ کی سرزمین پہ قدم رکھتے ہی خوف کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور رحمت و محبت کا وسیع و عریض سائبان اپنے سائے میں پناہ دے دیتا ہے۔

ہم نے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ پر نظریں جمائے افطاری کی۔ برآمدے کی صفوں میں بیٹھے مہمانوں میں کھجوریں اور آب زمزم تقسیم کردیا گیا تھا۔ افطاری اور نماز باجماعت کے وقفے میں قہوہ دیا جا رہا تھا۔ میرے ساتھ جدہ والے دوست پروفیسر ظفر علی احسن تھے جو گھر سے کھانا بنوا کر ساتھ لائے تھے۔ ہم نماز مغرب ادا کرنے کے بعد باہر نکلے تاکہ عشاء تک کھانے سے فارغ ہو جائیں۔ اب مسئلہ تھا سالن کو گرم کرنے کا۔ حرم شریف سے ملحقہ تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے مجھے یہ مناظر اچھے لگے کہ اکثر اہل مکہ اپنے گھروں کے باہر تھڑوں پر بیٹھے گپیں مارنے اور قہوہ پینے میں مصروف تھے۔ یہ لاہور کے اندرون شہر سے ملتا جلتا منظر تھا۔ شاید اس لئے میرے دل کو بھا گیا۔ پروفیسر ظفر علی احسن نے دو تین مقامات پر کھانا گرم کرنے کی اجازت چاہی۔ ناکامی ہوئی اور سرد مہری نے استقبال کیا۔ بالآخر ایک مقام پر اجازت ملی۔ ہم نے کھانا گرم کرکے حرم شریف کے احاطے میں بیٹھ کر کھایا تو مجھے بار بار احساس ہوتا رہا کہ ہمارے نبی کریمؐ کو انہی سخت دلوں سے پالا پڑا یہاں مسلمانوں نے فتح مکہ سے قبل اپنوں کے ہاتھوں جتنی سختیاں اور مظالم برداشت کئے ان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ فتح کے بعد جس طرح معافی کا اعلان کر دیا گیا اور شدید ترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیا گیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ گویا مظالم بھی بے مثال تھے تو معافی، عفو و درگزر اور رحمۃ للعالمین کی رحمت بھی بے مثال تھی۔ انسانی تاریخ ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مکہ معظمہ نبی کریمؐ کا آبائی قصبہ تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے نئی اسلامی ریاست کا دارالخلافہ مدینہ منور کو بنایا۔ اس میں کیا حکمت الٰہی مضمر تھی صرف میرا رب جانتا ہے۔

عاشقان رسولؐ اور مدینہ منورہ کی ٹھنڈی ہوائوں کا آپس میں ہمیشہ گہرا تعلق رہا ہے جسے صرف عاشق ہی محسوس کر سکتا ہے۔ میرے محترم دوست بابا مست اقبال سچے عاشق رسول ؐتھے اور ہمہ وقت جذب کی کیفیت میں رہتے تھے۔ میرا ان کے ساتھ طویل ساتھ رہا اور میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ ان کا باطن ہمیشہ منور اور زندہ رہتا تھا۔ جو بات زبان سے نکلتی، سچ ثابت ہوتی۔ انہوں نے غالباً کوئی تیس پینتیس حج اور پچاس ساٹھ عمرے کئے۔ مجھے بھی ان کے ساتھ دو بار عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سات برس قبل بابا جی بھلے چنگے گھر میں تشریف فرما تھے اور بار بار کہے جاتے تھے مجھے مدینہ منورہ کی ٹھنڈی ہوائیں بلا رہی ہیں۔ سامنے اخبار اور کچھ کاغذ پڑے تھے ان پر لکھتے جاتے تھے، مجھے مدینہ کی ٹھنڈی ہوائیں بلا رہی ہیں۔ اچانک شام کو طبعیت خراب ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور نواسہ انہیں کار کی پچھلی سیٹ پر لٹا کر اسپتال لائے۔ پچھلی سیٹ پر ان کا سر بیٹے کی گود میں رکھا تھا، اس نے ایک عجیب سا منظر دیکھا جسے لکھنا مناسب نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور کہا ’’لے بھئی اللہ دے حوالے، مینوں بیلی لین آگئے نیں، ماں دا خیال رکھنا‘‘ (اچھا جی اللہ کے حوالے مجھے دوست لینے آگئے ہیں، اپنی ماں کا خیال رکھنا) اس کے ساتھ ہی مدینہ منورہ کی ٹھنڈی ہوائیں ان کی روح کو لے کر رخصت ہو گئیں۔

تازہ ترین