• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمران قانون کے اجراء و نفاذکے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن وہ خود ہی قانون کی زد پر آجائیں تو قانون کے نفاذ کی ذمہ داری کے اہل نہیں رہتے۔یہ درست ہے کہ راجہ پرویز اشرف تاحال کرپشن کے الزامات کی زد پر ہیں انہیں مجرم نامزد نہیں کیا گیا لیکن وہ اپنے عہدے کااخلاقی جواز کھوچکے ہیں۔ دنیا غالب# کے اس مصرے کی تصویر بن گئی ہے کہ”یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں“۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ پاکستان میں اعلیٰ حکومتی عہدے ہی اخلاقیات کا بڑامدفن ہیں۔ رائے ونڈ میں سرکردہ سیاستدانوں کے اجتماع کی جمہوریت سے خلوص کی گہرائی اور شفافیت واضح اور آشکار لیکن وہاں بھی راجہ پرویز اشرف کے استعفے پر زور نہیں دیا گیا ہو۔ ہمارے اہل سیاست بدعنوانی،چوری،لوٹ مار اور کرپشن کو جرائم کی فہرست میں شامل ہی نہیں سمجھتے۔ سب کی واحد ترجیح یہ ہے کہ اگلے انتخابات کا جو روڈمیپ طے کیاجاچکا ہے اور جو حصہ انہیں ملنا ہے وہ بلاکسی رکاوٹ انہیں مل جائے۔ نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا”دنیاٹھگوں کادشت ہے“پاکستان حوالہ ہو تو کہا جاسکتا ہے”سیاست ٹھگوں کا دشت ہے“۔کرپشن کے بعد زرداری حکومت کی بے لاگ اور غیر مشروط دوستی بے حسی سے ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی 80سے زائد لاشوں کے ناقابل تصور ہتھیار کے ساتھ احتجاج کرتی رہی لیکن حکومت تین دن تک ساکت اور جامد رہی۔حفاظتی نفاستوں کے پیش نظر صدر زرداری مقامات آہ و فغاں سے دور رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک پیر صاحب نے بھی انہیں پہاڑوں سے دور رہنے اور سمندر کے قریب رہنے کا مشورہ دیا ہے لیکن صوبے کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کا رویہ نااہلی اور بے حسی پر حرف آخر ہے۔ انہوں نے مقتولین کے ورثا سے ایک لفظ بھی تسلی کا نہیں کہا۔ معاملہ محض صدر زرداری اور وزیراعلیٰ کا نہیں ہے المیہ یہ ہے کہ سماج اپنی ہیئت کھو چکا ہے۔ سماجی روایات اور سماجی تعلقات سب کچھ انتہاپسندی کی زد پر ہیں۔ اہل تشیع کی ہلاکت پر ملک بھر میں صرف شیعہ برادری نے احتجاج کیا باقی ہر طرف خاموشی۔
اور اب راجہ پرویزاشرف کی گرفتاری کے احکامات جاری کرتی عدالت عظمیٰ سے نوسوگز کی دوری پرلانگ مارچ، دھرنا اور معاہدہٴ لانگ مارچ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان آمد اور لاہور میں23دسمبرکے جلسے کے بعد ہی شکوک وشبہات کا اظہارکیا جانے لگا تھا کہ”کہاں سے کس سبو سے کاسہٴ پیری میں مے آئی“ لیکن جب انہوں نے اسلام آباد تک مارکی تو پھر دھرنے کے شرکاء کی تعداد کو موضوع بحث بنا دیا گیا حالانکہ روایتی طور پر متعلقہ جماعت شرکاء کی تعداد دو، تین گنا بڑھا کر بتاتی ہے جبکہ حکومت اور مخالفین پانچ چھ گناکم کرکے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے باب میں مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ شیخ الاسلام کا لاحقہ بھی لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے ان سے مبالغہ کی توقع نہیں کی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد میں شدید سرد موسم کے باوجود ایک عظیم تعداد میں خواتین، شیرخواربچے، بزرگ اور ہر طبقے کے لوگ انتہائی نظم وضبط کے ساتھ دھرنے میں شامل اور متحرک تھے۔ پہلی بارنظرآیا کہ بغیر کوئی شیشہ اورگملا توڑے پُرامن احتجاج بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر اس قدر بڑا ہجوم خوفناک نتائج بھی پیدا کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے آخری مرحلے میں اس کی دھمکی بھی دی تھی ایک اورسانحہٴ لال مسجد بھی ممکن تھا لیکن صدشکرکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اوردھرنے کے شرکاء بخیروعافیت گھرلوٹ گئے۔
دھرنے کے پہلے روز ڈاکٹر طاہرالقادری کااندازیہ تھا کہ”جلا دو پھونک ڈالو یہ دنیا…میرے سامنے سے ہٹا لو یہ دنیا“ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سیلاب کی تندی لئے ہوئے تھے۔ وہ حکمران طبقے کو کرپٹ، ٹھگ، ڈکیت، بدمعاش اور یزید کہتے رہے لیکن اس کے بعد وہ اپنے تضادات کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اقبال نے کہا تھا”زمیں پر تُو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں پر“۔ ڈاکٹر طاہر القادری اتنا گرجے اتنا برسے کہ ان کی صداآسمانوں تک پہنچ گئی لیکن اس کے بعد وہ حرف دعا بھول گئے اور صرف معاہدہ ہی معاہدہ رہ گیا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آگئے جنہیں وہ یزید اور ٹھگ کہتے رہے مذاکراتی ٹیم میں وہ بھی شامل تھے جن پر کرپشن کے الزامات تھے، عدالتوں میں مقدمات بھی اور جنہیں ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات کا سامنا تھا اور جو آئین کے آرٹیکل 62/اور63 پر بھی پورا نہیں اترتے تھے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری جن لوگوں کو یزید سے تشبیہ دیتے رہے انہوں نے نہ صرف ان سے معانقے کئے، گلے ملے بلکہ ان کو جمہوریت پسند اور عوام کا خیرخواہ بھی ڈکلیئر کر دیا۔ جس وزیراعظم کی گرفتاری کو انہوں نے آدھی کامیابی قرار دیا تھا پوری کامیابی کے لئے وہ اسی وزیراعظم سے دستخط کے طالب تھے۔ ”اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ…دریا سے اٹھے لیکن ساحل سے نہ ٹکرائے“۔ معاہدہٴ لانگ مارچ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے بنیادی مطالبات میں کوئی ایک بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ان کا پہلا مطالبہ اسمبلیوں کی فوری تحلیل اور حکومت کا خاتمہ تھا لیکن اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔ جس حکومت کے خاتمے پر وہ بضد تھے، معاہدے کے بعد وہ اسی حکومت کا حصہ بن گئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو لگتا ہے بوقت معاہدہ وہ فراموش کر گئے۔ نگراں حکومت کے لئے فوج اور عدلیہ کی مشاورت یہ مطالبہ انہوں نے خود ہی خلاف آئین تسلیم کر لیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کونسا بنیادی مطالبہ تھا جو پورا ہوا؟حکومت نے ان کے تمام مطالبات بڑی پُرکاری اور فنکاری سے مسترد کرتے ہوئے فیس سیونگ دینے کیلئے تین صفحات کا ایک معاہدہ پکڑا دیا جس کے ملکی سیاست پر مثبت اثرات ہوں گے اور نہ منفی۔ البتہ طاہرالقادری کو ذاتی حیثیت میں بہت کچھ حاصل ہو گیا۔ وہ چند ہی ہفتوں میں ملکی سیاست کے اہم کھلاڑی اور اسٹک ہولڈر بن گئے۔ پاکستان کے بڑے سیاست دانوں کی فہرست مرتب ہوگی تو ان کا نام ابتدائی ناموں میں شامل ہوگا، نگراں وزیراعظم کا انتخاب ان کی مشاورت سے کیا جائے گا،آئندہ حکومتی اتحاد سے مذاکرات منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ میں ہوں گے۔کوئی کامیابی سی کامیابی ہے، رہے عوام تو وہ پہلے بھی جمہوریت کا شکار تھے اور آئندہ پانچ سال کے لئے بھی اس کا پکا بندوبست کردیا گیا ہے۔ امجد اسلام امجد یاد آجاتے ہیں”دائروں میں چلتے ہیں…دائروں میں چلنے سے…دائرے تو بڑھتے ہیں…فاصلے نہیں گھٹتے“۔ پاکستان کے عوام اس ملک کو اللہ کی حاکمیت اور قوانین کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔یہی پاکستان کا مقدر ہے اس کے سوا سب کچھ صحرا نوردی اور دائروں کا سفر ہے۔
تازہ ترین