• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام افراد کی طرح سیاستدان بھی پیروں کا بہت اکرام و احترام کرتے ہیں۔ پیروں اور مخدوموں میں سے بہت سے گدی نشین تو عملاً سیاست میں آ گئے ہیں جو خود مخدوم نہیں ہیں مگر خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں وہ بھی کسی ”پیر کامل“ سے راہ و رسم رکھتے ہیں تاکہ سیاست کی راہ کھوٹی نہ ہو۔ چند روز قبل ٹی وی چینلز نے یہ بھانڈا پھوڑا تھا کہ صدر زرداری کسی زلزلے یا سیاسی جوار بھاٹا کے خوف سے اسلام آباد چھوڑ کر کراچی میں مقیم نہیں بلکہ پیر محمد اعجاز کے کہنے پر سمندر کنارے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کیونکہ پیر صاحب نے اسلام آباد پر مارگلہ کی پہاڑیوں سے امڈ کر ایوان صدر میں داخل ہوتی نحوستوں کے سائے دیکھ لئے تھے ۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے ستارے بھی گردش میں ہیں اس لئے وہ بھی اپنے پیر صاحب پیر عبدالمجید خان کے قدموں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق سپریم کورٹ سے ان کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری ہوا تو پیر صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں انہوں نے سہمے ہوئے وزیراعظم کو یقین دلایا کہ جیسے تم سوئس حکام کو خط لکھنے کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے تھے ویسے ہی یہ مرحلہٴ شوق بھی طے ہو جائے گا اور واقعی اگلے دن یہ معاملہ ٹل گیا تو پیر کامل پر اعتقاد مزید مضبوط ہو گیا۔ پیر عبدالمجید خان کا تعلق کے پی کے سے ہے اور پیری مریدی کے مقابلے میں جو مقام و مرتبہ خیبرپختونخوا کو حاصل ہے وہ کسی اور صوبے کے حصے میں نہیں آیا۔ مانسہرہ میں ایک قصبہ ہے ”لساں نواب“ یہاں سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پہنچے ہوئے بزرگ کا آستانہ ہے جن کا نام تو رحمت اللہ دیوانا بابا تھا اور انہیں بابا نانگا بھی کہا جاتا تھا مگر انہیں فقید المثال شہرت بابا دھنکا کے نام سے حاصل ہوئی سب سے پہلے میر ظفر اللہ جمالی کی والدہ یہاں تشریف لائیں اس کے بعد میر ظفر اللہ جمالی نے بابا دھنکا کے ہاتھوں پربیعت کی۔ بابا دھنکا ایک چھڑی لے کر بیٹھتے تھے اور عقیدت مندوں کا تصور یہ تھا کہ جسے چھڑی لگ جاتی ہے اس کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔ ظفر اللہ جمالی نے یہاں آ کر چھڑیاں کھائیں تو جلد یا بدیر وہ وزیراعظم بن گئے ان کے متعارف کرانے پر میاں نواز شریف نے بابا دھنکا کی زیارت کی اور چھڑیاں کھا کر دوبارہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی دیکھا دیکھی بینظیر بھٹو بھی چھڑیاں کھانے جا پہنچیں۔ گویا سیاسی مرشد مختلف ہونے کے باوجود میاں نواز شریف اور بے نظیر ”پیر بہن بھائی“ ٹھہرے۔ میاں نواز شریف نے بابا دھنکا کے آستانے پر ہیلی پیڈ بنوایا اور قصبہ ”لساں نواب“ سے ان کی درگاہ تک تنگ و تاریک راستے کو پختہ سڑک میں تبدیل کرنے کیلئے تین کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کی۔ اس دوران میاں صاحب کی حکومت رخصت ہو گئی تو محترمہ نے یہ منصوبہ مکمل کرایا۔ میاں صاحب کے داماد کیپٹن صفدر بھی بابا دھنکا کے مریدوں میں شامل تھے سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی بھی دوبارہ وزیراعظم بننے کی چاہ میں چھڑیاں کھانے جا پہنچے مگر ان کی خواہش پوری ہونے سے پہلے ہی بابا دھنکا دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ہر حاکم وقت کو اپنے مستقبل کا حال معلوم کرنے کا شوق رہتا ہے اس لئے کوئی روحانی شخصیات کا سہارا لیتا ہے‘ کوئی نجومیوں پر بھروسہ کرتا ہے‘ کوئی ماہرین فلکیات پر انحصار کرتا ہے تو کوئی سیاسی تجزیہ نگاروں کی پیشگوئیوں پر اعتبار کرتا ہے۔
علم نجوم‘ ستاروں کی گردش‘ علم الاعداد‘ ہاتھوں کے زائچوں کی بنیاد پر کئے جانے والے دعووٴں کی حقیقت پر تو ازل سے بحث جاری ہے اور ہمیشہ اس کی موافقت اور مخالفت کے حق میں دلائل دیئے جاتے رہیں گے لیکن مستقبل کا حال جاننے کیلئے جوتشیوں اور نجومیوں کا سہارا لینا ہر دور کے حکمرانوں کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے۔ اپنے کل کے بارے میں جاننے کا اشتیاق اس اندیشے اور خوف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے کہ کہیں ان کا تاج و تخت چھن نہ جائے‘ ان کے اقتدار پر کوئی قبضہ نہ کر لے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا جلا وطن ہونا پڑے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ فال نکلواتے تھے‘ زائچے بنواتے تھے‘ کاہنوں اور جوتشیوں سے صلاح مشورے کیا کرتے تھے آج بھی کوئی حکمران تعویز باندھتا ہے، کوئی امام ضامن پر بھروسہ کرتا ہے ،کوئی اپنے پیر صاحب سے مشورہ کرتا ہے لیکن اب یہ کام نسبتاً پڑھے لکھے لوگوں نے ایک نئے انداز میں سنبھال لیا ہے اگر موجودہ حکمران ضعیف الاعتقادی کا ٹھپہ لگنے کے خوف سے ان پرانے اور فرسودہ طریقوں کواختیار نہیں بھی کرتے تو موجودہ دور کے سیاسی تجزیہ نگاروں‘ مبصرین اور قانونی ماہرین کو کم و بیش وہی حیثیت حاصل ہے جو بادشاہوں کے درباروں میں کاہنوں‘ جوتشیوں‘ نجومیوں اور جنترمنتر کے ماہرین کو حاصل تھی۔ ایک بہت بڑی تاریخی غلط فہمی یہ ہے کہ نپولین بونا پارٹ قسمت یا دست شناسی پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس کے درباری لکھاریوں اور قصیدہ خوانوں نے نپولین بونا پارٹ کی جرأت و بہادری سے متعلق جو فسانے تراشے ہیں اور جس قدر مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے مثلاً یہاں تک بے پرکی اڑائی گئی کہ نپولین نے ایک دست شناس کو اپنا ہاتھ دکھا کر قسمت کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ تمہارے ہاتھ میں تو کامیابی کی لکیر ہی نہیں ہے یہ سن کر نپولین نے خنجر نکالا اور اپنی ہتھیلی پر خنجر کی نوک سے لکیر کھینچ دی۔
جس نپولین کی جرأت و بہادری کے افسانے تراشے گئے وہ تو اس قدر بزدل اور ضعیف الاعتقاد تھا کہ گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ستارہ شناس حساب کتاب لگا کر کلیئرنس دیا کرتے تھے۔ واٹرلو کی مشہور جنگ جس میں روسیوں نے نپولین کو شکست دی اس کے بارے میں انگریز جرنیل لڈل ہارٹ نے اپنی کتاب ”Why Do'nt You Learn From History“ میں نپولین کی شکست کا ذکر بہت دلچسپ پیرائے میں کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ 19ویں صدی کی سپر پاور کے فرمانروا نپولین کو شکست دینے کا کریڈٹ ”جنرل ونٹر“ کو جاتا ہے یعنی روس کی شدید سردی نے اس کا ستیاناس کر دیا۔چنانچہ پے در پے فتوحات کے زعم میں نپولین اس مرتبہ اپنے بااعتماد ستارہ شناس کی منظوری کے بغیر ہی جنگ پر روانہ ہوگیا جب ستارہ شناس واپس آیا اور اسے صورتحال کا علم ہوا تو وہ لشکر کے پیچھے گیا مگر میدان جنگ کے قریب پہنچنے کے باوجود نپولین سے اس کی ملاقات نہ ہو سکی ۔جب شکست کے بعد نپولین کے فوجیوں کی لاشیں جمع کی جا رہی تھیں تو اس ستارہ شناس کی لاش بھی ایک گڑھے سے موصول ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پرچی تھی جس پر لکھا تھا ”نپولین یہ تمہاری زندگی کا منحوس ترین دن ہے“ تاریخ کے چوراہے پر ایک کتبہ نصب ہے جس پر نہایت جلی حروف میں لکھا ہے کہ مہلت ختم ہوجائے تو کوئی پیر‘ کوئی جوتشی‘ کوئی نجومی ‘کوئی ستارہ شناس نحوست کے آگے ڈھال بنتا ہے نہ آنے والی بلاوٴں کو ٹال سکتا ہے مگر حکمرانوں کی آنکھوں میں خوش فہمی کا ایسا موتیا اتر آتا ہے کہ دیوار پر لکھی تحریر دکھائی ہی نہیں دیتی ۔
یوسف رضا گیلانی تو خود مرشد تھے‘ شاہ محمود قریشی بھی گدی نشین ہیں‘ امین فہیم مخدوم آف ہالہ ہیں تو پیر صبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا ہیں اگر یہ سب پیرانِ کامل اپنی کرسی نہیں بچا سکے تو خداموں اور مریدوں کے مرشد کرسی کے تحفظ کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں ؟
تازہ ترین